لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا
اس کے بہکاوے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی شیطان انسان کا بڑا ہی بے وفا ہے۔“ (٢٩)
مَّھْجُوْرًا: ہجر سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ترک کرنا۔ یعنی لوگوں نے اس قرآن کو قابل التفاف ہی نہ سمجھا۔ مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تھے تاکہ قرآن نہ سنا جا سکے، یہ بھی قرآن کا ترک کرنا ہی ہے۔ اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی اسے ترک کرنا ہے۔ اس پر غور و فکر نہ کرنا، اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی اسے ترک کرنا ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی اسے ترک کرنا ہے، جس کی قیامت والے دن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں شکایت کریں گے کہ امت کے لوگ قرآن کی طرف مائل نہ تھے، نہ رغبت وقبولیت کے ساتھ اسے سنتے تھے بلکہ اوروں کو بھی اس کے سننے سے روکتے تھے۔ ارشاد ہے: ﴿لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِيْهِ﴾ (حم السجدۃ: ۲۶) ’’اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور وغل کرو۔‘‘