سورة البقرة - آیت 279

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اگر تم نے سود نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ ہاں اگر تو بہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اگر تم نے سود نہ چھوڑا۔ تو پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور اگر تم توبہ کرلو یعنی سود چھوڑ دو تو اصل سرمایہ تمہارا حق ہے۔ اور سود کا مطالبہ کرکے مقروض پر ظلم نہ کرو۔ اسی طرح مقروض کو اصل سرمایہ ادا کرنا ہوگا تاکہ تم پر بھی ظلم نہ ہو۔ ایسا کرنے سے انسان کے دل میں اخلاقی لحاظ سے اللہ کا خوف رہتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سود کی رقم واپس بھی کرسکتا ہے ۔ قیامت کے دن فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سود كے ذریعے سے مال میں اضافہ كرے گا اس كا انجام مال كی قلت ہو گا۔‘‘(مسند احمد: ۲۱/ ۳۹۵، ح: ۳۷۵۳) سود کا پہلا مطالبہ تقویٰ ہے یعنی اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو ضمیر کا چوکیدار ہے خدا خوفی کا نگران ہے۔