سورة المؤمنون - آیت 115

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹ کر نہیں آنا۔“ (١١٥)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اعمال کے نتائج بھگتنے کے لیے ایک طویل مدت (آخرت) کی ضرورت: کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم اس دنیا میں عیش و آرام کرنے اور مزے لوٹنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ اس دنیا میں نہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ملتا ہے نہ اپنے خیال کے مطابق نیک اعمال کرنے والوں کو ان کی نیکی کا بدلہ ملتا ہے اور نہ کبھی کوئی انسان دوبارہ زندہ ہو کر واپس ہی آیا ہے۔ جو یہ خبر دے کہ ظالموں کو اس کے ظلم کی سزا ملی ہے۔ حالانکہ اگر تم کائنات کے نظام عدل میں ذرا سا بھی غور کرتے تو تمہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ کائنات اور اس میں موجود انسان کو محض ایک کھیل تماشا کے طور پر نہیں بنایا گیا۔ لیکن ہر سبب ایک نتیجہ پیدا کر رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہارے اچھے اور برے اعمال کا کوئی نتیجہ مرتب نہ ہو اور چونکہ دنیا کی زندگی اعمال کا نتیجہ بھگتنے کے لحاظ سے بہت قلیل ہے لہٰذا مرنے کے بعد اب طویل زندگی کا قیام ضروری ہوا تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔