فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
” جن کے اعمال والے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے۔ (١٠٢)
ان دو آیات میں قیامت کے دن کا ایک دوسرا منظر سامنے لایا گیا ہے جبکہ ہر شخص کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن کیا جائے گا پلڑا بھاری ہونے سے مراد نیکیوں والا پلڑا ہے اور اصل چیز جو اس پلڑے کو بھاری اور وزن دار بنا سکتی ہے وہ کلمہ توحیداور اس پر استقامت ہے۔ پھر اعمال صالحہ اس کی مزید تائید کریں گے۔ نیکیوں کا پلڑا جھکنے پر فوراً صاحب عمل کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ دنیا کے امتحان میں پاس ہو گیا ہے اور اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہے گی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھ گیا تو ایسے لوگ اس امتحان میں فیل اور ناکام ہو جائیں گے پھر ایک تو انھیں اس ناکامی پر افسوس اور حسرت ہو گی دوسرا اس کے نتیجے میں جہنم کا عذاب ان کے لیے پہلے ہی تیار ہو گا اور ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہو گی کہ وہ اللہ کی توحید کے اقرار کے ساتھ شرک بھی کرتے رہے ہوں گے اور خسارہ کی صورت یہ ہو گی کہ وہاں اچھے عمل بھی کرتے رہے محنت بھی، مگر شرک کی آمیزش کی وجہ سے نیک اعمال ان کے کام بھی نہ آئے اور الٹا جہنم کے عذاب سے دوچار بھی ہونا پڑ گیا۔