حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ
” یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے تو کہے گا کہ اے میرے رب مجھے دنیا میں واپس بھیج۔ (٩٩)
بعد از مرگ: موت کے وقت کفار اور بدترین گنہگار سخت نادم ہوتے ہیں اور حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کرتے ہیں کہ کاش ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ ہم نیک اعمال کر لیں، لیکن اس وقت یہ امید فضول اور یہ آرزو لا حاصل ہو گی، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِيْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِيْبٍ١ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۔ وَ لَنْ يُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا وَ اللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾(المنافقون: ۱۰۔ ۱۱) ’’جو ہم نے دیا ہے ہماری راہ میں دیتے رہو۔ اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آ جائے اس وقت وہ کہے کہ الٰہی ذرا سی مہلت دے دے تو میں صدقہ خیرات کر لوں اور نیک بندہ بن جاؤں لیکن اجل آ چکنے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی، تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے۔‘‘ اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں مثلاً: سورہ ابراہیم (۴۴)، سورۂ اعراف (۵۳) السجدہ (۱۲)، الانعام (۲۷، ۲۸)، الشوریٰ (۲۴)، المومن (۱۱، ۱۲)، فاطر (۳۷) وغیرہا من الآیات: ان آیتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایسے بدکار لوگ موت کو دیکھ کر، قیامت کے دن، اللہ کے سامنے پیشی کے وقت اور جہنم کے سامنے کھڑے ہو کر دنیا میں واپس آنے کی تمنا کریں گے۔ لیکن ان وقتوں میں ان کی یہ طلب پوری نہ ہو گی۔ یہ تو وہ کلمہ ہے۔ جو ایسے آڑے وقتوں میں ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہ کہتے تو ہیں مگر کرنے کے نہیں۔ یہ تو جھوٹے ہیں اور کتنا مبارک وہ شخص ہے جو اس زندگی میں نیک عمل کرے اور کیسے بدنصیب یہ لوگ ہیں کہ آج نہ انھیں مال و اولاد کی تمنا ہے۔ نہ دنیا اور زینت دنیا کی خواہش ہے۔ صرف یہ چاہتے ہیں کہ دو روز کی زندگی اور ہو جائے تو کچھ نیک اعمال کر لیں۔ لیکن تمنا بیکار، آرزو بے سود، خواہش بے جا۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان کی تمنا پر اللہ انھیں ڈانٹ دے گا اور فرما دے گا کہ یہ بھی تمہاری محض بات ہے عمل اب بھی نہیں کرو گے۔ حضرت علاء بن زیاد کیا ہی عمدہ بات فرماتے ہیں، آپ فرماتے ہیں، تم یوں سمجھ لو کہ میری موت آ چکی تھی لیکن میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے چند روز کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں نیکیاں کر لوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کافر کی اس امید کو یاد رکھو اور خود زندگی کی گھڑیاں اطاعت الٰہی میں بسر کرو۔ (ابن کثیر: ۳/ ۵۷۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب کافر اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور وہ اپنا جہنم کا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب مجھے لوٹا دے، میں توبہ کر لوں گا اور نیک اعمال کرتا رہوں گا جواب ملتا ہے کہ جتنی عمر تجھے دی گئی تھی تو ختم کر چکا، پھر اس کی قبر اس پر سمٹ جاتی ہے اورتنگ ہو جاتی ہے اور سانپ بچھو اسے چمٹ جاتے ہیں۔ (ابن کثیر: ۳/ ۵۷۲)