سورة المؤمنون - آیت 95

وَإِنَّا عَلَىٰ أَن نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم تمہارے سامنے عذاب لانے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ (٩٥)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

کفار مکہ پر اس قسم کے عذاب کا آغاز غزوہ بدر سے ہی ہو گیا تھا اور اختتام حجۃ الوداع کے دن اعلان براءت پر ہوا جس کی رو سے صرف مشرکین مکہ کو ہی نہیں، بلکہ عرب بھر کے مشرکوں کو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس عرصہ کے اندر خواہ وہ اسلام قبول کر لیں یا جزیرۃ العرب کو خالی کر دیں اور یہاں سے نکل جائیں یا پھر ان سے جہاد کر کے ان کا کلی صفایا کر دیا جائے گا۔ یہ تو وہ عذاب تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ان پر نازل ہوا جبکہ خلفائے راشدین کے زمانے میں تو آس پاس کے ممالک سے شرک اور مشرکین کا کلی طور پر خاتمہ ہو گیا اور اسلام کا بول بالا ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگرچہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ آپ کے جیتے جی انھیں وہ عذاب چکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے مگر ہنوز وہ وقت نہیں آیا۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ آپ ان مشرکوں کے برے سلوک اور ان کی ناگوار اور تلخ باتوں کا جواب بھلائی سے دیں۔ ابھی ان میں کئی لوگ ایسے موجود ہیں جن کے لیے ہدایت مقدر ہو چکی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ﴾ (حم السجدۃ: ۳۴) ’’برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا دشمن بھی تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔‘‘