سورة الحج - آیت 28

لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” تاکہ فوائد حاصل کریں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر ایّام میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں دیے ہیں خود بھی کھائیں اور تنگ دست لوگوں کو بھی کھلائیں۔ (٢٨)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حج کے فوائد و برکات: حج کے فوائد صرف دینی ہی نہیں بلکہ اس اجتماع حج سے کئی قسم کے سیاسی اقتصادی، معاشی اور تمدنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ نماز، طواف، مناسک حج و عمرہ کے ذریعے سے اللہ کی مغفرت حاصل کی جاتی ہے۔ تمام مسلمانوں کو وحدت میسر آتی ہے۔ حج ہی کی برکت سے قریش مکہ کو جو بیت اللہ کے متولی تھے پورے عرب میں ایک امتیازی مقام حاصل تھا یہ حج ہی کی برکت تھی کہ لوٹ مار کے اس دور میں بھی کم از کم چار مہینے لوگ امن و امان سے سفر کر سکتے تھے یہ حج ہی کی برکت تھی کہ مکہ ایک عالم تجارتی منڈی بن گیا۔ یہ حج ہی کی برکت ہے کہ یہاں سے اُٹھائی ہوئی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ بَہِیْمَۃِ الْاَ نْعَامِ: (پالتو جانور) سے مراد گائے، اونٹ، بھیڑ بکری وغیرہ ہیں جن کی قربانی دی جاتی ہے۔ یہ اسی صورت حلال ہوں گے جب ان کو ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لیا جائے، اگر اللہ کے سوا کسی اور کا نام بھی لیا جائے یا عمداً اللہ کا نام چھوڑ دیا جائے تو اسے ذبح شدہ جانور کا کھانا حلال اور جائز نہ ہوگا۔ اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو جب یاد آئے اسی وقت اللہ کا نام لے لیا جائے تو قربانی جائز و حلال ہی رہے گی۔ مختصر سے مختصر الفاظ جو قربانی کے وقت کہے جا سکتے ہیں وہ یہ ہیں: (بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہ اَکْبَرُ) ’’ ایام معلوم‘‘ سے مراد: ذبح کے ایام یعنی ’’ایام تشریق‘‘ ہیں جو ۱۰ ذوالحجہ اور تین دن اس کے بعد یعنی ۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحجہ تک ہیں عام طور پر ایام معلومات سے عشرۃ ذوالحجہ اور ایام معدودات سے ایام تشریق مراد لیے جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں مروی ہے کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں سے بڑا ار پیارا نہیں پس تم ان دس دنوں میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ بکثرت پڑھا کرو۔ (احمد: ۲/ ۷۵) انہی دس دنوں کی قسم رب تعالیٰ نے سورہ فجر کی آیت نمبر ۲۱ میں کھائی ہے۔ (سنن ابو داؤد: ۲۴۳۷ میں ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں میں روزے سے رہا کرتے تھے۔ (مسلم : ۱۱۶۲) ان دس دنوں میں قربانی کا دن یعنی بقرہ عید کا دن ہے۔ جن کا نام اسلام میں حج اکبر کا دن ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ سب دنوں سے افضل ہے۔ الغرض سارے سال میں ایسی فضیلت کے دن اور نہیں ہیں۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم: حدیث میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قربانی کی تو حکم دیا کہ ہر اونٹ کے گوشت کا ایک ٹکڑا نکال کر پکا لیا جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گوشت کھایا اور اس کا شوربا پیا۔ (احمد: ۱/ ۳۱۴) اس کا یہ مطلب نہیں کہ قربانی کا گوشت غنی لوگ کھا ہی نہیں سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ محتاجوں، فقرا، اور مساکین کو بھی اس گوشت میں ضرور شامل کیا جائے جبکہ خود کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ایک حصہ خود رکھ لو۔ ایک حصہ اپنے ہمسایوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ اور ایک حصہ فقرا و مساکین میں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ تینوں حصے برابر برابر ہوں بلکہ حسب ضرورت کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور بہتر یہ ہے کہ اپنے لیے حصہ تیسرے سے کم رکھا جائے اور فقرا کے لیے تیسرے حصے سے زیادہ۔