إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
” جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ (٢٣)
جنت کے محلات اور باغات: اوپر جہنمیوں کی سزاؤں کا، ان کے طوق و زنجیر کا ان کے جلنے اور جھلسنے کا ان کے آگ کے لباس کا ذکر کر کے اب جنت کا، وہاں کی نعمتوں کا اور وہاں کے رہنے والوں کا حال بیان فرمایا جا رہا ہے۔ (اللہ ہمیں اپنی سزاؤں سے بچائے اور جزاؤں سے نوازے۔ آمین) ایمان اور نیک عمل کے بدلے جنت ملے گی جہاں کے محلات اور باغات کے چاروں طرف پانی کی نہریں لہریں مار رہی ہوں گی۔ جنتی جدھر کو چاہیں گے خود بخود ان کا رخ ادھر کو ہو جایا کرے گا۔ سونے کے زیوروں سے سجے ہوں گے، موتیوں میں تل رہے ہوں گے۔ ایک متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ’’مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچتا ہے۔‘‘ (بخاری: ۵۹۵۳) کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’جنت میں ایک فرشتہ ہے جس کا نام بھی مجھے معلوم ہے۔ وہ اپنی پیدائش کے وقت سے مومنوں کے لیے زیور بنا رہا ہے، اور قیامت تک اسی کام میں لگا رہے گا۔ اگر ان میں سے ایک کنگن بھی دنیا میں ظاہر ہو جائے تو سورج کی روشنی اس طرح جاتی رہے جس طرح اس کے نکلنے سے چاند کی روشنی جاتی رہتی ہے۔ (ابن کثیر: ۳/ ۵۰۳) بہشتیوں کے کپڑے: بہشتی نرم، چمکیلے اور ریشمی کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ وَّ حُلُّوْا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا﴾ (الدہر: ۲۱) ’’ان کے لباس سبز ریشمی ہوں گے چاندی کے کنگن ہوں گے اور شراب طہور کے جام پر جام پی رہے ہوں گے۔‘‘ یہ ہے تمہاری جزا اور یہ ہے تمہاری بار آور سعی کا نتیجہ۔ صحیح بخاری کتاب اللباس میں ہے کہ ’’ریشم تم نہ پہنو، جو اسے دنیا میں پہن لے گا، وہ آخرت کے دن اس سے محروم رہے گا۔‘‘ (بخاری: ۵۸۳۲) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’جو اس دن ریشمی لباس سے محروم رہا وہ جنت میں نہ جائے گا کیونکہ جنت والوں کا یہی لباس ہے۔ (احمد: ۱/ ۳۷)