سورة الأنبياء - آیت 44

بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو اور ان کے آباو اجداد کو ہم زندگی کا سروسامان دیے چلے گئے یہاں تک کہ ان کی مہلت طویل ہوگئی مگر کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے جاتے ہیں ؟ کیا یہ غالب آجائیں گے ؟“ (٤٤)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

کافروں کے کینہ کی اور گمراہی پر جم جانے کی وجہ بیان ہو رہی ہے یعنی ان کی یا ان کے آباو اجداد، کی زندگیاں عیش و راحت میں گزر گئیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں؟ اور آیندہ بھی انھیں کچھ نہیں ہوگا؟ نہیں! بلکہ یہ چند روزہ زندگی کا آرام تو ہمارے اصول مہلت کا ایک حصہ ہے۔ اس سے کسی کو دھوکا اور فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ صَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ﴾ (الاحقاف: ۲۷) ’’ہم نے تمھارے آس پاس کی بستیاں ہلاک کیں اور اپنی نشانیاں ہیر پھیر کر تمھیں دکھا دیں تاکہ لوگ اپنی برائیوں سے باز آجائیں۔‘‘ زمین کو گھٹانے کا مطلب: یعنی ارض کفر بتدریج گھٹ رہی ہے اور دولت اسلام وسعت پذیر ہے۔ کفر کے پاؤں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اور اسلام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور مسلمان علاقے پر علاقہ فتح کرتے چلے جا رہے ہیں، یعنی کفر کو سمٹتا اور اسلام کو بڑھتا ہوا دیکھ کر بھی کیا وہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب ہیں، نہیں وہ غالب نہیں مغلوب ہیں۔ فاتح نہیں مفتوح ہیں، معزز و سرفراز نہیں بلکہ ذلت و خواری ان کا مقدر ہے۔