سورة طه - آیت 72

قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” جادوگروں نے جواب دیا قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم واضح نشانیاں آجانے کے بعد بھی تجھے ترجیح دیں تو جو کچھ کرنا چاہتا ہے کرلے۔ تو بس اسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ (٧٢)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جادوگروں کی جرأت ایمانی: اس سزا کے اعلان پر جادوگر فرعون سے بڑی جرأت سے کہنے لگے تم جو چاہے سمجھو ہم نے تو وہی بات کہنی ہے۔ جس کی ہمارے ضمیر نے شہادت دی ہے۔ ہم سب کچھ سمجھ کر ایمان لائے ہیں۔ لہٰذا اب تم جو سزا دینا چاہو دے لو۔ تم زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کر سکتے ہو کہ ہمیں جان سے مار ڈالو گے۔ اس بات کی ہمیں پرواہ نہیں۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری سابقہ خطائیں معاف فرما دے اور بالخصوص اس گناہ کی جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا۔ اور ہم ان پیغمبروں کے مقابلہ پر اتر آئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس بچے لے کر انھیں جادوگروں کے سپرد کیا تھا کہ انھیں جادو کی پوری تعلیم دو۔ اب یہ لڑکے یہ مقولہ کہہ رہے ہیں کہ تو نے ہم سے جبراً جادوگری کی خدمت لی۔ (تفسیر طبری) حضرت عبدالرحمن بن زید رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے۔ ایمان اور کفر کا فرق: یہی جادوگر مقابلہ سے پہلے فرعون کے سامنے جی حضور، جی حضور کہتے نہ تھکتے تھے۔ فتح ہونے کی صورت میں انعام و اکرام ملنے کی التجا بھی کر رہے تھے اور فرعون انھیں ایسے وعدے بھی دے رہا تھا مگر جب ایمان لے آئے تو اسی جابر بادشاہ کے سامنے اس جرأت سے بات کرتے ہیں کہ اگر وہ سولی چڑھانے کی دھمکیاں دیتا ہے تو اس کی پرواہ نہیں کرتے۔