قُلْ مَن كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا
” ان سے کہو جو شخص گمراہ ہوتا ہے اسے رحمان مہلت دیا کرتا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگ وہ کچھ دیکھ لیتے ہیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے خواہ وہ عذاب الٰہی ہو یا قیامت کی گھڑی تب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس کی حالت خراب ہے اور کون سا گروہ کمزور ہے۔“
انعامات کی فراوانی سے آزمایش: دنیا کے ساز و سامان ایسی چیزیں نہیں کہ ان پر فخر و ناز کیا جائے۔ یا ان کو دیکھ کر حق و باطل کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ کوئی معیار نہیں ہے۔ اصل اچھے بُرے کا پتہ تو اس وقت چلے گا، جب مہلت عمل ختم ہو جائے گی اور اللہ کا عذاب انھیں آگھیرے گا یا قیامت برپا ہو جائے گی۔ لیکن اس وقت کا علم کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ کیونکہ وہاں ازالہ اور تدارک کی کوئی صورت نہ ہوگی اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ حقیقتاً خوشحالی کس فریق کا مقدر ہے اور سوسائٹی کے لحاظ سے کون بہتر ہے؟