فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا
” پھر وہ اس بچے کو لے کر اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے اے مریم یہ تو نے برا کام کیا ہے۔ (٢٧)
یہود کی بہتان تراشیاں: مریم علیہا السلام نے اللہ کے حکم کو تسلیم کر لیا اور بچے کو گود میں لیے ہوئے لوگوں کے پاس آئیں۔ دیکھتے ہی ہر ایک انگشت بدنداں رہ گیا اور ہر منہ سے نکل گیا کہ مریم تونے بڑا ہی برا کام کیا۔ اور کہا کہ ہارون جیسے پاکیزہ خاندان کی اولاد ہوتے ہوئے تو نے یہ کیا گل کھلا دیا۔ ہماری عزت خاک میں ملا دی۔ غرض بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں۔ کسی نے کہا تمھاری ماں (عمران کی بیوی) ایک پاک باز اور عفیفہ عورت تھی اور باپ (عمران) بھی بڑا شریف آدمی تھا پھر تجھ میں یہ بری خصلت کہاں سے آگئی۔ سیدہ مریم خاموشی اور تحمل سے ساری باتیں سنتی رہیں۔ سیدہ مریم ہارون کی بہن کیسے تھیں؟ کہتے ہیں کہ سیدہ مریم کے ایک بھائی کا نام بھی ہارون تھا۔ اسی وجہ سے لوگو ں نے سیدہ مریم کو اے ہارون کی بہن کہا تھا۔ ترمذی میں مروی ہے کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نجران کے عیسائیوں کی طرف (مناظرہ کے لیے) بھیجا تو انھوں نے کہا: تم جو ’’یَا اُخْتَ ھَارُوْنَ‘‘ پڑھتے ہو تو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام میں تو کافی مدت ہے؟ (پھر مریم ہارون یعنی موسیٰ علیہ السلام کی بہن کیسے ہوئی؟) او رمیں نہیں سمجھتا تھا کہ انھیں کیا جواب دوں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انھیں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے انھیں یہ نہ بتایا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے کے نبیوں اور بزرگوں کے نام رکھا کرتے تھے۔ (یعنی موسیٰ کے بھائی ہارون اور تھے اور مریم کا بھائی ہارون اور تھا۔) (مسند احمد: ۳/ ۱۴۱)