قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا
زکریا نے عرض کی! پروردگار بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ چکا ہوں۔“
عَاقِرًا: اس عورت کو کہتے ہیں کہ جو بڑھاپے کی وجہ اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو۔ اور اس کو بھی کہتے ہیں کہ جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے اُسے عِتِيًّا کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے۔ اور میں بڑھاپے کے انتہائی درجے پر پہنچ چکا ہوں اب اولاد کیسے ممکن ہے؟ زکریا کے تعجب کی وجہ: یعنی جب دعا کی تو اس وقت تو تعجب نہ ہوا۔ اور جب قبول ہو گئی اور بشارت ملی تو تعجب کرنے لگے۔ اور یہ تعجب اس لیے نہ تھا کہ آپ کو اللہ کی قدرت میں شک تھا ورنہ ایسی دعا ہی نہ کرتے۔ بلکہ یہ تعجب اس فطری داعیہ کی بنا پر تھا کہ انسان کی عادت ہے کہ جب کوئی غیر معمولی خوش خبری سنے تو مزید اطمینان اور مزید خوشی کے حصول کے لیے اس بات کو کرید کرید کر بار بار پوچھتا ہے۔