قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اس نے عرض کی اے میرے پروردگار میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور بڑھاپے سے میرا سر چمک اٹھا ہے۔ اے پروردگار میں تجھ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد نہیں ہوا۔“
وَاشتعل الرأس کا لفظی معنی سر کا شعلہ مارنا ہے۔ مگر یہ بطور محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح لکڑی کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح میرا سر بالوں کی سفیدی سے بھڑک اُٹھا ہے۔ مراد ضعف و بڑھاپے کا اظہار ہے۔ اسی لیے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود میں تجھ سے اولاد مانگ رہا ہوں۔ حضرت زکریا کے بیٹے کے لیے دعا کرنا: یعنی لڑکا طلب کرنے سے میری اصل غرض یہ ہے کہ وہ میرا صحیح جانشین ثابت ہو۔ کیونکہ دوسرے میرے بھائی بند جو مجھے نظر آ رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو میرے بعد دعوت دین اور تبلیغ کے کام کو سنبھال سکے۔ صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں سب صدقہ ہے۔ (بخاری: ۳۰۹۳، مسلم: ۱۷۵۹) ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ ہم جماعت انبیاء ہیں ہمارا ورثہ نہیں بٹا کرتا۔ (ترمذی: ۲۹۹۴) اس لیے ثابت ہوا کہ حضرت زکریا کا یہ فرمان کہ مجھے بیٹا دے جو میرا وارث ہو اس سے مطلب ورثہ نبوت ہے نہ کہ مالی ورثہ۔ پسندیدہ بنانا سے مراد یہ ہے کہ اس کے اخلاق و کرادار اس قدر پاکیزہ ہوں کہ وہ سب لوگوں کی نظروں میں مقبول و محبوب اور پسندیدہ ہو۔