قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا
” اے نبی ان سے فرما دیں کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اعمال کے اعتبار سے نقصان پانے والے کون لوگ ہیں ؟ (١٠٣)
یعنی اعمال ان کے ایسے ہیں جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہیں لیکن بزعم خویش سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ اس سے مراد کون ہیں؟ بعض کہتے ہیں یہود و نصاریٰ ہیں بعض کہتے ہیں کہ خارجی اور اہل بدعت ہیں بعض کہتے ہیں کہ مشرکین ہیں صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے جس میں ہر وہ فرد اور گروہ شامل ہے جس کے اندر مذکورہ صفات ہوں گی۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ان کے صاحب زادے مصعب نے سوال کیا کہ کیا اس آیت سے مراد خارجی ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس سے مراد یہود و نصاری ہیں یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا، نصرانیوں نے جنت کو سچا نہ مانا او رکہا کہ وہاں کھانا پینا کچھ نہیں۔ خارجیوں نے اللہ کے وعدے کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیا۔ پس حضرت سعد رضی اللہ عنہ خارجیوں کو فاسق کہتے ہیں۔ (بخاری: ۴۷۲۸) جو بھی اللہ کی عبادت و اطاعت اس طریقے سے بجا لائے جو طریقہ اللہ کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہو کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کر لیا ہے۔ میرے نیک اعمال اللہ کے پسندیدہ ہیں اور مجھے ان پر اجر و ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں جیسے سورہ غاشیہ میں ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل و خوار ہوں گے جو دنیا میں بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے او رسخت تکلیفیں اُٹھائے ہوتے تھے آج وہ باوجود ریاضت و عبادت کے جہنم واصل ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیے جائیں گے۔