كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
تم پر جہاد فرض کردیا گیا ہے اگرچہ وہ تمہیں مشکل معلوم ہو‘ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور دراصل وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے لیے نقصان دہ ہو۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جارہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو چاہے وہ تمہیں گراں اور ناگوار ہی لگے اس لیے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ہوسکتا ہے اس میں تمہارے لیے بہتری ہو جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح و نصرت، غلبہ، عزت و سربلندی اور مال و اسباب مل سکتا ہے۔ اس طرح تم جس کو پسند کرو یعنی گھر میں بیٹھ رہنا اس کا نتیجہ تمہارے لیے خطرناک بھی ہوسکتا ہے یعنی دشمن تم پر غالب آجائے اور تمہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ جہاد کسی قوم کی روح رواں ہوتی ہے: شہید کی موت قوم کی حیات ہے اسی لیے کتاب و سنت میں جہاد کو افضل عمل قراردیا گیا ہے۔