سورة الكهف - آیت 79

أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے میں نے چاہا کہ اس میں نقص ڈال دوں کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو اچھی کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا۔“ (٧٩)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کی مصلحتیں: اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے حضرت خضر کو مطلع کر دیا تھا اور انھیں جو حکم ملا تھا وہ انھوں نے کیا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس راز کا علم نہ تھا۔ اس لیے بہ ظاہر اسے خلاف شریعت سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے حضرت خضر نے اب اس معاملہ کو سمجھا دیا کہ ایک ظالم بادشاہ تھا ہر اچھی کشتی کو وہ بے کار میں لے لیتا تھا میں نے سوچا کہ اگر یہ کشتی چھین لی گئی تو بے چاروں کا روز گار بند ہو جائے گا۔ لہٰذا میں نے کشتی سے ایک تختہ توڑ دیا اور وہ غصب ہونے سے بچ گئی میں نے دراصل کشتی والوں سے بھلائی کی آخر میں نے کیا برا کیا تھا؟