وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا
” اور رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو حق دیجیے اور فضول خرچی نہ کیجیے۔“ ( ٢٦) ”
ماں باپ سے حسن سلوک کا حکم دے کر اب قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اور قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوا ہے کہ غریب رشتے داروں، مساکین، ضرورت مند مسافروں کی امداد کرکے ان پر احسان نہیں جتلانا چاہیے کیونکہ یہ ان پر احسان نہیں ہے۔ بلکہ مال کا وہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا رکھا ہے۔ اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے گا تو اللہ کے نزدیک مجرم ہوگا گویا یہ حق کی ادائیگی ہے کسی پر احسان نہیں ہے۔ علاوہ ازیں رشتے کا پہلے ذکر کرکے ان کی اولیت اور حقیقت بھی واضح ہوتی ہے۔ رشے داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔ جس کی اسلام میں بڑی تاکید ہے۔ تبذیر اور اسراف میں فرق: اسراف سے مراد ضرورت کے کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا۔ مثلاً اپنے کھانے، پینے یا لباس وغیرہ میں زیادہ خرچ کرنا۔ اور تبذیر سے مراد ایسے کاموں میں خرچ کرنا جن کی ضرورت کا زندگی میں کوئی تعلق نہ ہو جیسے فخر و ریا، نمود ونمایش اور فسق و فجور کے کاموں میں خرچ کرنا، یہ اسراف سے زیادہ برا کام ہے اسی لیے اس کو شیطان سے مماثلت دی ہے۔ اور شیطان کے کام کی مماثلت سے بچنا چاہیے چاہے وہ کسی ایک ہی خصلت میں ہو۔ پھر شیطان کو (کفوراً) کا کہہ کر مزید بچنے کی تاکید کر دی ہے کہ اگر تم شیطان کی مماثلت اختیار کرو گے تو تم بھی اسی کی طرح (کفوراً) قرار دے دیے جاؤ گے۔ (فتح القدیر)