لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ
تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکرِ الٰہی کرو۔ اور اس کا ذکر اس طرح کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی اور بے شک تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے
حج میں تجارت: جاہلیت کے غلط اعتقادات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ لوگ حج کے دوران تجارت کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اور اسے خلوص عمل کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں منیٰ میں تجارتی بازار لگا کرتے تھے صحابہ نے حج کے دنوں میں تجارت کو گناہ سمجھا تب یہ آیت نازل ہوئی۔ عرفات میں حاضر ہونا حج کا رکن اعظم ہے: سیدنا عبداللہ بن نعیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا کہ حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ منیٰ کے تین دن ہیں پھر اگر کوئی شخص جلدی میں ہو اور دو دن میں ہی چلا آئے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرا دن ٹھہرا رہا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔‘‘(بخاری: ۴۵۲۱۔ ترمذی: ۲۹۷۵) ۹ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف حج کا سب سے بڑا اور اہم رکن ہے۔ یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعت فرض اور عشاء کی دو رکعت (قصر) جمع کرکے پڑھنی چاہیے مزدلفہ میں مشعر حرام ہے۔ کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے یہاں ذکر الٰہی کی تاکید ہے۔ یہاں رات گزارنی ہے فجر کی نماز اول وقت پڑھ کر طلوعِ آفتاب تک ذکر الٰہی میں مشغول رہا جائے پھر طلوع آفتاب کے بعد منیٰ جایا جائے۔