سورة الإسراء - آیت 15

مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” جس نے ہدایت پائی اس نے اپنے ہی لیے ہدایت پائی اور جو گمراہ ہوا اس کا وبال اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم پیغام پہنچانے سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیتے۔“ (١٥)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اچھے اور برے اعمال انسان کے اپنے لیے ہیں۔ جس نے راہ راست اختیار کی، حق کی اتباع کی، نبوت کی بات مانی تو اس نے اپنے حق میں اچھائی کی، او رجو حق سے ہٹا، پھر اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔ کوئی کسی کے گناہ میں پکڑا نہیں جائے گا۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے کوئی نہ ہوگا جو دوسرے کا بوجھ اٹھائے گا جیسا کہ سورہ عنکبوت۱۳ اور سورہ نحل ۲۵ میں ہے۔ البتہ یہ اپنے بوجھوں کے ساتھ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے جنھیں وہ بغیر علم کے گمراہ کرتے رہے۔ دیکھو کیسا برا بوجھ ہے جو وہ اُٹھائیں گے۔ اللہ کی سنت: اللہ کسی قوم کو عذاب نہیں کرتا جب تک وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر نہ بھیج لے۔ یعنی دنیاوی عذاب کے لیے بھی اور اخروی عذاب کے لیے بھی اتمام حجت پوری کرتا ہے۔ چنانچہ سورہ تبارک میں ہے کہ دوز خیوں سے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمھارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے؟ وہ جواب دیں گے بے شک آئے تھے لیکن ہم نے انھیں سچا نہ جانا۔ انھیں جھٹلایا اور ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا بھیجنا اور کتابوں کے نزول کے بغیر اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب نہیں دے گا۔ رہا یہ سوال کہ جس قوم یا جس فرد تک اس کا پیغام نہیں پہنچا، قیامت والے دن وہ خود ہی فرمائے گا، وہاں یقینا کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا۔ اسی طرح بہرا، پاگل، فاترالعقل اور زمانہ فترت یعنی دو نبیوں کے درمیانی زمانے میں فوت ہونے والے لوگوں کا مسئلہ ہے۔ ان کی بابت بعض روایات میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ ان کی طرف فرشتے بھیجے گا اور وہ انھیں کہیں گے کہ جہنم میں داخل ہو جاؤ۔ اگر وہ اللہ کے اس حکم کو مان کر جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو جہنم ان کے لیے گل و گلزار بن جائے گی بصورت دیگر انھیں گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ مسند احمد (۴/۲۴) علامہ البانی نے صحیح الجامع الصغیر۸۸۱ میں اسے ذکر کیا ہے۔ چھوٹے بچوں کی بابت اختلاف ہے: مسلمانوں کے بچے تو جنت میں ہی جائیں گے البتہ کفار و مشرکین کے بچوں میں اختلاف ہے کوئی توقف کا، کوئی جہنم میں جانے کا اور کوئی جنت میں جانے کا قائل ہے۔ امام ابن کثیر نے کہا کہ میدان محشر میں ان کا امتحان لیا جائے گا، جو اللہ کے حکم کی اطاعت کرے گا وہ جنت میں اور جو نافرمانی کرے گا جہنم میں جائے گا۔ امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ مسلم اور سنن کی حدیث میں ہے کہ انصاریوں کے ایک بچے کے جنازے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’اس بچے کو مرحبا ہو یہ تو جنت کی چڑیا ہے۔ نہ برائی کا کوئی کام کیا نہ اُس زمانے کو پہنچا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کے سوا کچھ اور بھی ہے اے عائشہ! سنو! اللہ تعالیٰ نے جنت اور جنتیوں کو مقرر کر دیا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے اسی طرح اس نے جہنم کو پیدا کیا ہے اور اس میں جلنے والے پیدا کیے ہیں حالانکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پیٹھ میں ہیں۔ (مسلم: ۲۶۶۲، ابن ماجہ: ۸۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے منبر کے خطبے میں فرمایا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا ہے کہ اس اُمت کا کام ٹھیک ٹھیک رہے گا جب کہ یہ بچوں کے بارے میں اور تقدیر کے بارے میں کچھ کلام نہ کریں گے۔ (حاکم: ۱/ ۳۳) امام ابن حبان کہتے ہیں، مراد اس سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں کلام نہ کرنا ہے۔