سورة الإسراء - آیت 13

وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ہم نے ہر انسان کا نصیب اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کا اعمالنامہ نکالیں گے، جسے وہ اپنے سامنے کھلاپائے گا۔“ (١٣) ”

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

انسان کے اعمال اس کے وجود کے اندر: طائر کے معنی پرندے کے ہیں اور عنق کے معنی گردن کے ہیں امام ابن کثیر نے طائر سے مراد انسان کے اعمال لیے ہیں۔ ’’ فِیْ عُنُقِہٖ‘‘ کا مطلب ہے اس کے اچھے یا برے عمل، جس پر اسے اچھی یا بری جزا دی جائے گی۔ اللہ کے ہاں اس کا پورا پورا ریکارڈ موجو دہے۔ یعنی اس کا ہر عمل لکھا جا رہا ہے۔ جو گلے کے ہار کی طرح اس کے ساتھ ہوں گے قیامت کے دن اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ امام شوکانی نے طائر سے مراد انسان کی قسمت لی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق پہلے سے لکھ دی ہے۔ جسے سعادت مند اور اللہ کا مطیع ہونا تھا وہ اللہ کو معلوم تھا اور جسے نافرمان ہونا تھا وہ بھی اس کے علم میں تھا یہی قسمت(سعادت مندی یا بدبختی) ہر انسان کے ساتھ گلے میں ہار کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔ اسی کے مطابق اس کے عمل ہوں گے اور قیامت والے دن اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے۔