وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ
اور فرمائیں کہ میں یقینی طور پر ڈرانے والاہوں۔“ (٨٩) ”
قسمیں کھانے والوں پر عذاب کانزول: اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو حکم دیتاہے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آپ اعلان کردیجیے کہ میں لوگوں کو عذاب الٰہی سے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ اگر متقین کے معنی تقسیم کرنے والے یا بانٹ لینے والے قرار دیا جائے ۔ اس صورت میں یہود و نصاریٰ دونوں مراد ہیں جنہوں نے قرآن کے بعض حصوں کو تو تسلیم کیااور بعض حصوں کاانکار کیا اور بعض کے نزدیک ان سے مراد کفار مکہ ہیں جن کامطالبہ تھاکہ قرآن کی جن آیات میں ہمارے بتوں کی توہین ہوتی ہے ان کو نکال دو تو باقی باتیں ہم مان لیں گے اور بعض کے نزدیک صرف تفرقہ باز یہودی مراد ہیں اور قرآن سے مراد ان کی کتاب اللہ تورات ہے۔ ان لوگوں نے تورات کے بعض حصوں کو مان کر، بعض کاانکار کرکے، بعض آیات کو چھپا کر اور بعض کو تحریف لفظی یا معنوی کرکے بیسیوں فرقے بناڈالے تھے اور ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاً تنبیہات یا عذا ب نازل فرمایا۔ مقتسمین کا دوسرا معنی ہے باہم قسمیں کھانے والے۔ اس صورت میں مراد وہ لوگ یا قوتیں ہیں جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب یا بعض دوسری جھوٹی باتوں پر قسمیں کھائی تھیں اور انہوں نے کتب سماویہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ۔ حافظ ابن کثیر اسی معنی کی تائید کرتے ہیں اور اس معنی کی (تائید) میں کئی آیات پیش کیں۔ سورۃ النمل ۴۹ میں ہے کہ مثلاً قوم ثمود نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ ہم رات کو شب خون مار کر صالح ( علیہ السلام ) کو اور ان کے گھر والوں کو قتل کرڈالیں گے۔ اور فرمایا: ﴿وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ﴾ (النحل: ۳۸) ’’کافر وں نے پختہ قسمیں کھاکر کہاکہ جو مرچکا ہے اللہ اُسے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے سب لوگوں پر عذاب آیا اور قیامت کے دن ان سے سختی سے باز پرس بھی ہوگی۔ روز قیامت ایک ایک چیز کاسوال ہوگا۔ ان کے اعمال کا سوال ان کارب ان سے ضرور کرے گا۔ یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم میں سے ہر شخص قیامت کے دن تنہا تنہا اللہ کے سامنے پیش ہوگا جیسے ہر شخص چودھویں رات کے چاند کو اکیلا اکیلا دیکھتاہے۔ اللہ فرمائے گا اے انسان تو مجھ سے مفرو رکیوں ہوگیا؟ تو نے اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا؟ تونے میرے رسولوں کو کیا جواب دیا؟ (ترمذی: ۳۱۲۶) ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عمل اور مال کاسوال ہوگا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے معاذ! انسان سے قیامت کے دن ہر ہر عمل کاسوال ہوگا یہاں تک کہ اُس سے آنکھ کے سرمے اور اس کے ہاتھ کی گوندھی ہوئی مٹی کے بارے میں بھی اس سے سوال ہوگا اور سورۂ رحمن میں ارشاد ہے: ﴿فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُسْـَٔلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖ اِنْسٌ وَّ لَا جَآنٌّۚ﴾ (الرحمن: ۳۹) ’’اس دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہوں کا سوال نہ ہوگا۔‘‘ یہ سوال نہ ہوگاکہ تونے یہ عمل کیا؟بلکہ یہ سوال ہوگاکہ کیوں کیا؟