وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
” اور ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجے مگر مرد، جو ان ہی بستیوں کے رہنے والے تھے اور انھی کی طرف ہم وحی کیا کرتے تھے، تو کیا وہ چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں۔ تم نہیں سمجھتے ؟“ (١٠٩)
رسول کا اسی قوم سے اور بشر ہونا کیوں ضروری ہے۔ منکرین رسالت اور کفار مکہ کے ایک اعتراض کا جواب کہ ہم اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی نبوت و رسالت پر ایمان کیسے لائیں۔ جسے ہماری طرح تمام بشری اختیارات او رکمزوریاں لاحق ہیں۔ یہ اعتراض ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ یعنی تمام انبیاء نے اپنی قوم کے سامنے اپنا بچپن اور جوانی گزاری تاکہ نبوت سے پہلے کی زندگی ان کی دعوت پر گواہی کی حیثیت سے پیش کی جا سکے۔ اور ان کی قوم ان کی دعوت کو اچھی طرح سمجھ سکے۔ اگر باہر سے کوئی اجنبی آدمی ہم نبی بنا کر بھیج دیتے تو کیا وہ ان کی دعوت سمجھ سکتے تھے اور اگر سمجھ ہی نہ سکتے تو ایمان کیسے لا سکتے تھے جن لوگوں نے ایسے ہی اعتراض کرکے انبیا کی دعوت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کم از کم ان کا انجام ہی دیکھ لیتے کہ منکرین حق کا دنیا میں جو حشر ہوا ہے تو آخرت میں تو اس سے بھی بدتر ہو گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں ہی اصلاح کر لی اور اللہ سے ڈرتے رہے وہ نہ صرف دنیا میں ہی اچھے رہے بلکہ آخرت میں ان کا انجام اس سے بھی بہتر ہوگا۔ کوئی عورت نبی نہیں ہوئی۔ اس آیت کے ضمن میں دو باتیں مزید معلوم ہوئیں ایک یہ کہ کوئی عورت کسی دور میں نبی نہیں بنائی گئی۔ دوسرے یہ کہ کوئی نبی کسی بدوی یا جنگلی علاقہ میں مبعوث نہیں کیا گیا وہ بڑی بستیوں اور شہروں میں ہی پیدا ہوئے اور وہی ان کا مرکز تبلیغ رہا۔