سورة یوسف - آیت 88

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” پھر جب وہ اس کے ہاں داخل ہوئے کہنے لگے اے عزیز! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو تکلیف پہنچی ہے اور ہم معمولی رقم لے کر آئے ہیں، مگر ہمیں ماپ پورا عنایت کریں اور ہم پر صدقہ بھی کریں۔ یقیناً اللہ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔“ (٨٨)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

برادران یوسف علیہ السلام کا تیسری مرتبہ مصر جانا ہوا: یوسف علیہ السلام کے متعلق تو انھیں کچھ معلوم نہ تھا لیکن ظن ضرور تھا کہ جس قافلہ نے اسے کنوئیں سے نکالا تھا وہ مصر جا رہا تھا لہٰذا یہ امکان تھا کہ شاید وہ مصر میں ہی ہو البتہ بنیامین کے متعلق یقین تھا کہ اسے شاہِ مصر نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ تیسرا بھائی بھی ادھر ہی تھا۔ لہٰذا انھوں نے تیسری بار مصر کا رخ کیا ۔ اور جب بھائی یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے اور اپنے دکھ اور اپنے گھر والوں کی مصیبتیں بیان کیں اور التجا کی کہ ہم لوگوں پر سخت مشکل وقت آن پڑا ہے۔ کھانے کو غلہ نہیں اور غلہ کے لیے رقم نہیں۔ یہ تھوڑی سی پونجی ہم لائے ہیں اگر آپ غلہ پورا دے دیں تو آپ کی انتہائی مہربانی ہوگی۔ آپ علیہ السلام کے پہلے بھی ہم پر بہت احسان ہیں اب بھی ہم پر احسان فرمائیے۔ اور اللہ احسان کرنے والوں کو بہترین جزا دے گا۔ اور یقینا آپ علیہ السلام کو بھی اللہ ضرور ان شاء للہ جزا دے گا۔