قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
” اس نے کہا میں اسے تمہارے ساتھ ہرگز نہ بھیجوں گا، یہاں تک کہ تم میرے ساتھ اللہ کی قسم اٹھا کر پختہ عہد کرو کہ تم ہر صورت اسے میرے پاس لاؤ گے، مگر یہ کہ تمہیں گھیر لیا جائے۔ پھر جب انہوں نے پختہ وعدہ کرلیا تو اس نے کہا اللہ اس پر ضامن ہے جو ہم کہہ رہے ہیں۔“ (٦٦)’
یعقوب علیہ السلام ان تمام باتوں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جب تک تم حلفیہ اقرار نہ کرو گے کہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ مجھ تک واپس پہنچاہو گے میں اسے تمھارے ساتھ بھیجنے کا نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ خدانخواستہ تم سب ہی گھیر لیے جاؤ اور تمھیں اپنی جانوں کی حفاظت بھی مشکل ہو جائے۔ چنانچہ بیٹوں نے اللہ کو بیچ میں رکھ کر باپ کے ساتھ پختہ عہد و پیمان کیا۔ تو اس وقت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ جو کچھ ہم میں قول و قرار پایا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ گوا ہ ہے اور وہی اسے بخیر و عافیت سرانجام دینے والا ہے۔