قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ
اس عورت نے کہا یہی ہے وہجس کے بارے میں تم نے مجھے ملامت کی اور بلاشبہ میں نے اسے اس کے نفس سے ورغلایا تھا۔ مگر یہ بالکل بچ گیا اور اگر اس نے وہ نہ کیا جو میں اسے حکم دیتی ہوں تو اسے ضرور قید کیا جائے گا اور یہ ہر صورت بے عزت ہونے والوں سے ہوگا۔“ (٣٢)
جب عزیز مصر کی بیوی نے دیکھا کہ اس کی چال کامیاب رہی اور عورتیں یوسف علیہ السلام کے جلوہ حسن آراء سے مبہوت و مدہوش ہو گئیں ہیں تو کہنے لگی، کہ ا سکی ایک جھلک سے تمھارا یہ حال ہو گیا ہے تو کیا تم اب بھی مجھے اس کی محبت میں گرفتار ہونے پر طعنہ زنی کرو گی؟ یہ وہ غلام ہے جس کے بارے میں میں تم مجھے ملامت کرتی ہو۔ عورتوں کی مدہوشی دیکھ کر اس کو مزید حوصلہ ہو گیا اور شرم و حیا کے سارے حجاب دور کرکے اس نے اپنے برے ارادے کا ایک مرتبہ پھر اظہار کر دیا کہ اگر اس نے میری با ت نہ مانی تو اسے قید خانہ بھگتنا ہوگا اور اس میں اس کو بہت ذلیل کروں گی۔