وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
” اور ایک قافلہ آیا تو انھوں نے اپنے پانی لانے والے کو بھیجا سو اس نے اپنا ڈول لٹکایا۔ کہنے لگا ! خوشخبری ہو ! یہ ایک لڑکا ہے۔ اور انھوں نے پونجی سمجھ کر چھپا لیا اور اللہ خوب جانتا تھا جو وہ کررہے تھے۔“ (١٩) ”
قافلے والوں کا یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکالنا: برادران یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈال کر بھائی کا تماشا دیکھنے کے لیے کنوئیں کے آس پاس ہی دن بھر پھرتے رہے۔ اتفاق سے ایک آدھ دن کے بعد وہاں سے ایک قافلہ گزار انھوں نے سقے کو پانی کی تلاش میں بھیجا۔ جب وہ اس کنوئیں پر پہنچا پانی حاصل کرنے کے لیے اپنا ڈول اس کنوئیں میں ڈالا۔ جب ڈول اوپر کھینچا تو پانی کی بجائے ایک خوبصورت لڑکا باہر نکلا جس کو دیکھ کر مارے خوشی کے فوراً اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا آہا یہ تو خوبصورت لڑکا مل گیا ہے۔ ان دنوں بردہ فروشی کا عام رواج تھا اور یہ قافلہ بھی تجارتی قافلہ تھا۔ انھیں ایسے خوبصورت لڑکے کا مل جانا ایک نعمت غیر مترقبہ تھی۔ لہٰذا قافلے والوں نے اس واقعہ کو مشہور کرنا مناسب نہ سمجھا مبادا اس بچے کا کوئی دعویدار اُٹھ کھڑا ہو۔ اللہ خوب جانتا ہے: یعنی یوسف علیہ السلام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا، اللہ کو اس کا علم تھا اللہ نے یہ سب کچھ اس لیے ہونے دیا کہ تقدیر الٰہی بروئے کار آئے علاوہ ازیں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اشارہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو بتلا رہا ہے کہ آپ کی قوم کے لوگ یقینا ایذا پہنچا رہے ہیں اور میں انھیں اس سے روکنے پا قادر بھی ہوں۔ لیکن میں اسی طرح انھیں مہلت دے رہا ہوں جس طرح برادران یوسف علیہ السلام کو مہلت دی تھی اور پھر بالآخر میں نے یوسف علیہ السلام کو مصر کے تخت پر جا بٹھایا اور اس کے بھائیوں کو عاجز و لاچار کرکے اس کے دربار میں کھڑا کر دیا۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ایک وقت آئے گا کہ آپ بھی اسی طرح سرخرو ہوں گے اور یہ سرداران قریش آپ کے اشارۂ ابرو او رجنبش لب کے منتظر ہوں گے چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر یہ وقت جلد ہی آگیا۔