خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ
وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں مگر جو تیرا رب چاہے۔ یقیناً تیرا رب جو چاہے، کرنے والاہے۔“ (١٠٧)
اور جب تک زمین آسمان قائم ہیں۔ یہ الفاظ بطور محاورہ استعمال کیے گئے ہیں کیونکہ اہل عرب دوام اور لامحدود مدت بیان کرنے کے لیے یہی الفاظ استعمال کرتے تھے۔ ورنہ یہ موجودہ زمین آسمان تو قیامت کے وقت ختم کر دیے جائیں گے ۔ ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا کہ کافروں کے لیے جہنم کا عذاب دائمی نہیں ہوگا یعنی اس وقت تک ہو گا جب تک زمین و آسمان رہیں گے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ آسمان و زمین سے مراد جنس ہے۔ یعنی دنیا کے زمین وآسمان اور ہیں جو فنا ہو جائیں گے لیکن آخرت کے زمین و آسمان ان کے علاوہ ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ﴾ (ابراہیم: ۴۸) ’’اس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دیے جائیں گے‘‘ اور آخرت کے یہ زمین و آسمان جنت اور دوزخ کی طرح ہمیشہ رہیں گے اس آیت میں یہی زمین و آسمان ہیں نہ کہ دنیا کے زمین آسمان جو فنا ہو جائیں گے۔ (ابن کثیر) الایہ کہ آپ کا پروردگار چاہے: اس استثنا کے بھی کئی مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ ابن جوزی نے ’’زادالمسیر‘‘ میں نقل کیا ہے۔ ابن جریر نے خالد بن معدان، ضحاک، قتادہ اور ابن سنان کے اس قول کو پسند فرمایا ہے کہ یہ استثنا ان گناہ گاروں کے لیے ہے جو اہل توحید و اہل ایمان ہوں گے۔ اللہ اگر چاہے تو کسی مجرم کو تھوڑی سزا دے کر یا سزا دیے بغیر ہی معاف کر سکتا ہے۔