وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
”اور اگر اللہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرلے تو اس کو رد کرنے والا نہیں۔ اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے پہنچاتا ہے اور وہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔“
اس آیت میں حاجت روائی اور مشکل کشائی کی حقیقت یوں واضح کی گئی ہے کہ یہ دونوں باتیں خالصتاً اللہ ہی کے قبضہ قدر ت میں ہے۔ یعنی اگر کوئی تکلیف تمھارے مقدر میں لکھی ہوئی ہے تو کوئی جن یا فرشتہ، یا نبی اور بزرگ، پیر فقیر یا کوئی آستانہ مافوق الفطرت اسباب کے ذریعے اسے روک نہیں سکتی مثلاً ایک کسان پوری احتیاط سے اچھی قسم کا بیج بوتا اور اپنی فصل کی پوری طرح آبیاری اور نگہداشت کرتا ہے۔ مگر پکی ہوئی فصل کا اسے ملنا یا نہ مل سکنا، یا تھوڑی یا زیادہ ملنا یہ سب کچھ اللہ کے اذن پر موقوف ہے توحید کے اس عقیدہ کو سمجھنے سے ہر قسم کے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے۔