سورة یونس - آیت 89

قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” فرمایا بلا شبہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے، پس دونوں ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے راستے کی پیروی نہ کرنا جو نہیں جانتے۔“ (٨٩)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

کامیابی کے لیے صبر واستقلال کی اہمیت: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اپنی بد دعا پر قائم رہنا، چاہے اس کے ظہور میں تاخیر ہو جائے کیونکہ تمھاری دعا تو یقینا قبول کر لی گئی ہے۔ لیکن ہم اسے عملی جامہ کب پہنائیں گے؟ یہ خالص ہماری مشیئت و حکمت پر موقوف ہے۔ چنانچہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اس بددعا کے چالیس سال بعد فرعون اور اس کی قوم ہلاک کی گئی، اور بددعا کے مطابق فرعون جب ڈوبنے لگا تو اس وقت اس نے ایمان لانے کا اعلان کیا جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ دوسرا یہ مطلب کہ تم اپنی تبلیغ و دعوت، بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی اور اس کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد جاری رکھو۔