فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ
”پس انھوں نے اسے جھٹلا دیا تو ہم نے اسے نجات دی اور ان کو بھی جو اس کے ساتھ تھے کشتی میں اور انھیں جانشین بنایا اور ان لوگوں کو غرق کردیا جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا۔ آپ پس دیکھیں انجام کیسا ہوا ڈرائے گئے لوگوں کا۔“
حضرت نوح علیہ السلام کے واقعات کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلا رہی ہے۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں، پہلے انبیاء بھی ایسے ہی حالات سے دو چار ہوتے رہے ہیں، لہٰذا آپ کو صبر اور برداشت سے کام لینا چاہیے اور ساتھ ہی جھٹلانے والوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اپنے انجام پر غور کر لو۔ اگر تم اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے تو تمھار ابھی ایسا ہی انجام ہونے والا ہے۔ طوفان نوح علیہ السلام کی کیفیت: جھٹلانے والوں پر اللہ کا عذاب اسی صورت میں آیا کہ نیچے سے پانی کے چشمے جاری ہو گئے اوپر سے موسلادار بارش ہونے لگی، اور پانی سطح زمین سے اتنا بلند ہوا کہ پہاڑ تک اس میں غرق ہو گئے۔ مجرمین بھلا کیسے بچ سکتے تھے صرف وہی چند لوگ جو ایمان لائے تھے نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ پھر انھیں ہی پہلے لوگوں کا جانشین بنایا۔ اور آئندہ نسل انھی لوگوں بالخصوص حضرت نوح علیہ السلام کے تینوں بیٹوں سے چلی۔ اسی لیے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔