سورة یونس - آیت 71

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور انھیں نوح کی خبر پڑھ کر سنائیں جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اگر میرا کھڑا ہونا اور اللہ کی آیات کے ساتھ میرا نصیحت کرنا تم پر گراں گزرتا ہے تو میں نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا ہے، پس تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء کے ساتھ مل کرمتفقہ فیصلہ کرلو پھر تمہارا معاملہ تم پر کسی طرح مبہم نہ رہے پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔“ (٧١) ’

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حضرت نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو چیلنج: مشرکوں کے پاس اپنے مذہب کی صداقت کے لیے سب سے موثر ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ اگر تم لوگوں نے ان کے معبودوں یا اولیاء اللہ کی شان میں کوئی گستاخی یا توہین کی تو وہ تمھیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیں گے، اور ان کا یہ عقیدہ نوح علیہ السلام سے لے کر آج تک چلا آ رہا ہے۔ آج بھی اولیائے کرام کا کوئی تذکرہ اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو ایسی تہدید اور دھمکیاں مل جائیں گی کہ فلاں بزرگ کی فلاں شخص نے یوں توہین کی اس کا ستیاناس ہو گیا یہی بات نوح علیہ السلام کو بھی کہی گئی تو حضرت نوح علیہ السلام نے انھیں صاف فرما دیا کہ اگر تم پر گراں گزرتا ہے کہ میں تمھیں اللہ کی باتیں سنا رہا ہوں۔ تم اس سے چڑتے ہو اور مجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہو تو سنو مجھے تمھاری کوئی پرواہ نہیں، میں تم سے مطلقاً نہیں ڈرتا تم سے جو ہو سکے کر لو۔ اپنے ساتھ اپنے شریکوں اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بھی بلا لو۔ اور مل جل کر، مشورے کرکے، بات کھول کر پوری قوت کے ساتھ مجھ پر حملہ کرو۔ تمھیں قسم ہے جو میرا بگاڑ سکتے ہو اس میں کوئی کسر نہ رکھو۔ مجھے بالکل مہلت نہ دو۔ اچانک گھیر لو۔ میں حق پر ہوں اور حق کا ساتھی اللہ ہوتاہے۔ مجھے اس کی عظیم الشان ذات پر بھروسہ ہے۔ مجھے اس کی قدرت اور بڑائی معلوم ہے۔