وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی اے پروردگار! تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا دے اور یہاں کے رہنے والوں کو جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں۔ انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے کفر کیا اس کو بھی میں تھوڑا فائدہ دوں گا پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا۔ جو لوٹنے کی بد ترین جگہ ہے
حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس بے آب و گیاہ اور ویران مقام کو امن کا شہر بنادے اور جو لوگ یہاں آباد ہوں انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما، چنانچہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آج تک اور تا قیامت دنیا بھر سے لوگ اور اشیاء ضروری پہنچ رہی ہیں۔ اور کافروں کو بھی روزی مل رہی ہے مگر آخرت میں کافروں کو عذاب عظیم ہوگا۔ ابو شریح نے عمرو بن سعید کو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن خطبہ ارشاد فرمایا ۔ پہلے حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا: اللہ نے مکہ کو حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں تو جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے نہ وہاں خون بہانا درست ہے اور نہ درخت کاٹنا۔(بخاری: ۱۸۳۲، مسلم: ۱۳۵۴) امامت كن كو ملے گی؟ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ امامت صرف صالح لوگوں کو ملے گی، ظالموں کو نہیں ملے گی۔ اس آیت میں حضرت ابراہیم نے پھلوں کا رزق عطا کرنے کی دعا میں ایمان کی شرط از خود بڑھادی جس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ رزق کے معاملہ میں ایمان کوئی شرط نہیں وہ تو میں نیک و بد سب کو دوں گا۔ اور محبت اور ایمان کی شرط صرف امامت کے لیے ہے رزق کے لیے نہیں۔