لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
” اگر جلدی ملنے والا اور درمیانہ سفرہوتا تو وہ ضرور آپ کے پیچھے آتے لیکن انہیں سفرکی دوری مشکل نظر آئی اور عنقریب وہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو تمہارے ساتھ ضرور نکلتے وہ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک وہ جھوٹے ہیں۔“
منافقوں کے عذر: یہاں سے ان لوگوں کا بیان شروع ہورہا ہے۔ جنھوں نے عذر معذرت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی تھی۔ حالانکہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر نہ تھا۔ اگر تھوڑی سی محنت کے بعد منافقوں کو مال غنیمت ہاتھ آجانے کی توقع ہوتی اور سفر بھی اتنا طویل اور مشقت والا نہ ہوتا تو یہ منافق آپکے ساتھ نکلنے کو تیار ہوتے۔ شدید گرمی، سواریوں کی کمی، دبدبے والی حکومت سے مقابلہ جہاں فتح کی بجائے ناکامی کے آثار زیادہ دکھائی دیتے ہیں ایسی صورت میں یہ آپکا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں۔ اب یہ قسمیں ہی کھائیں گے اور اُدھر اُدھر کی باتیں عذر کے طور پر پیش کریں گے اللہ فرماتا ہے کہ ان کے جھوٹ کا مجھے علم ہے انھوں نے تو اپنے آپ کو غارت کرلیا ہے۔