قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ
” ان سے لڑو، اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔ (١٤)
جہاد کے نتیجہ میں مسلمانوں سے پانچ وعدے: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے پانچ وعدے یا جہاد سے تعلق رکھنے والی پانچ خوشخبریاں سنائیں۔ (۱)تمہارے ہاتھوں ان کو سزا دے اور ان کی بربادی تم خود کرو۔ (۲) مشرکوں کو رسوا کرے، اعلان براءت سے مشرکوں کی کس قدر رسوائی ہوئی۔ (۳)تمہیں ان پر مدد دے گا جسکا آغاز غزوہ بدر سے ہوگیا۔ (۴) مسلمانوں کے دل مشرکوں کے ظلم و ستم سہ سہ کر بہت زخمی ہوچکے تھے۔ ابتدائً انھیں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی، صرف ظلم برداشت کرنے اور درگزر کرنے کی تاکید کی جاتی رہی۔ پھر جوں جوں اللہ مشرکوں کو مسلمانوں سے پٹواتا رہا تو مسلمانوں کے انکی طرف سے دل ٹھنڈے ہوتے گئے۔ (۵)ان مفرور کافروں میں سے اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دیکر تمہارا غمگسار بھی بنادے گا۔ ابن عساکر نے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غضبناک ہوجاتیں تو آپ انکی ناک پکڑلیتے اور فرماتے اے عائشہ یہ دعا کرو۔ ترجمہ: ’’اے اللہ! اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پروردگار میرے گناہ بخش دے اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے۔‘‘ اے اللہ اپنے بندوں میں سے جسکی چاہے تو یہ قبول فرمالے۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے اپنے تمام کاموں میں اپنے شرعی احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا حکم دیتا ہے۔ وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر برائی بھلائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اسکا بدلہ دنیا و آخرت میں دیتا ہے۔ (ابن کثیر: ۲/ ۵۳۴)