سورة الانفال - آیت 39

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کا ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ جو کچھ وہ کررہے ہیں اسے خوب دیکھنے والاہے۔ (٣٩)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

فتنہ کا مفہوم : فتنہ کا لفظ بڑا وسیع المعنی ہے۔ اور یہاں اس سے مراد اسلام کے خلاف معاند انہ کوشش ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو۔ جہاد کی ضرورت: اسلام کی راہ صاف کرنے کا نا م جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مثلا جہاں مسلمان رہتے ہوں وہاں کا فر انھیں شرعی احکام بجا لانے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر دیں یا ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیں۔ مسلمان اپنی جگہ خود تو آزاد ہوں مگر دوسروں تک اسلام پہنچا نے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں ۔اسلام ان دونوں صو رتوں میں جہاد کا حکم دیتا ہے ۔اور جہاد فی سبیل اللہ کی تعریف ہی یہ ہے کہ اللہ کے کلمہ کا بول بالا ہو اور یہ اسوقت تک جاری رہنا چاہے کہ رکاوٹ یا فتنہ کا قلع قمع کردیاجائے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لیے، ایک شخص غیرت کے لیے، ایک شخص ریا کاری کے لیے لڑائی کر رہا ہے ۔تو ان میں سے کون اللہ كی راہ میں ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی غرض سے جہاد کرے وہ اللہ کی راہ میں ہے (بخاری: ۷۴۵۸، مسلم: ۱۵۰/ ۱۹۰۴) پھر فرمایا: دلوں کا حال اللہ کے سپرد کرو اللہ ان کے اعمال دیکھنے والا ہے۔