سورة الاعراف - آیت 205

وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور خوف سے صبح و شام یاد کریں اور بلند آواز کے بغیر بھی اور غافلوں سے نہ ہوجائیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کو بکثرت یاد کرو مگر خاموشی سے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صبح وشام اسکو بکثرت یاد کرو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ الْغُرُوْبِ﴾ (ق: ۳۹) ’’اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کیا کرو سورج طلوع اور غروب ہونے سے پہلے۔‘‘  رغبت سے، لالچ سے، ڈرا ور خوف کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل اپنی زبان سے اور اونچی آواز اور چلا چلا کر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا یہی تقاضا ہےارشاد ہے: ﴿وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾ (البقرۃ: ۱۸۶) ’’جب میرے بند ے تجھ سے میری بابت سوال کریں تو جواب دے کہ میں نزدیک ہوں دُعا کرنے والے کی دُعا کو جب بھی وہ مجھ سے کرے قبول فرما لیتا ہوں، غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ سب سے بڑی غفلت تو یہی ہے کہ انسان یہ بھول جائے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے ۔اور یہ دنیا جو دار الا متحان ہے اسے اللہ کا بندہ بن کر ہی رہنا چاہیے، نیز یہ بھی بھول جاتے کہ آخرت میں اس کے سب اعمال پر جواب طلبی اور مواخذہ ہوگا، دنیامیں جب بھی کوئی فتنہ پیدا ہوا ہے ۔ تو اسی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صبح و شام ذکر کی کثرت سے رغبت دلائی ہے ۔تاکہ لوگ غافلوں میں سے نہ ہو جائیں ۔