سورة الاعراف - آیت 184

أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ۗ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی میں کوئی پاگل پن نہیں ہے ؟ وہ تو ایک کھلم کھلے ڈرانے والے کے سواکچھ نہیں (١٨٤)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اب ایسے لوگوں کے بعض شبہات کا جواب دیا جا رہا ہے، مثلارسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی نبوت سے پہلے قریش مکہ کے سامنے ہے اور ساری قوم آپکو صادق اور امین کی حیثیت سے جانتی تھی، پھر نبوت کے بعد آپ نے اللہ کا پیغام لوگوں کو پہنچایا اور انھیں اخروی انجام سے ڈرایا تو وہ آپ کو مجنوں اور آسیب زدہ کہنے لگے ذرا سو چو کہ آپ کی پاکیزہ سیرت و کردار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجنون ہیں کیا صرف اس لیے تم انھیں مجنوں کہتے ہو کہ جو حقائق وہ پیش کرتا ہے وہ تم قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہے، حالانکہ اگر وہ کچھ بھی غور و فکر کرتے کہ جو کچھ ان کا ساتھی انھیں سمجھا رہا ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی شہادت دے رہا ہے۔