سورة المآئدہ - آیت 5

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کردی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے جنہیں کتاب دی گئی اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور ایمان والیوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انہیں ان کے مہر دے دو۔ عقد نکاح میں لانے والے، نہ مستی نکالنے والے اور نہ چھپی آشنایاں بنانے والے اور جو ایمان کا انکار کرے تو یقیناً اس کا عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں سے ہے۔“ (٥)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

9: کھانے سے یہاں مراد ذبیحہ ہے، اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی چونکہ جانور کے ذبح میں انہی شرائط کی رعایت رکھتے تھے جو اسلامی شریعت میں مقرر ہیں اور وہ دوسرے غیر مسلموں سے اس معاملے میں ممتاز تھے کہ فی الجملہ آسمانی کتابوں کو مانتے تھے، اس لئے ان کے ذبح کئے ہوئے جانور مسلمانوں کے لئے جائز قرار دئے گئے تھے، بشرطیکہ وہ جانور صحیح شرعی طریقے سے ذبح کریں، اور اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام نہ لیں، آج کل کے یہودیوں اور عیسائیوں میں ایک بڑی تعداد تو ان لوگوں کی ہے جو درحقیقت دہریے ہیں، خدا ہی کے قائل نہیں ہیں، ایسے لوگوں کا ذبیحہ بالکل جائز نہیں ہے اور ان میں سے بعض اگرچہ عیسائی یا یہودی ہیں مگر اپنے مذہب کے احکام چھوڑے ہوئے ہیں اور ذبح کرنے میں شرعی شرائط کا لحاظ نہیں کرتے، اس لئے ان کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہے۔ اس مسئلے کی پوری تحقیق میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) کی تفسیر معارف القراان اور جواہر الفقہ میں موجود ہے۔ نیز میرا بھی عربی رسالہ احکام الذبائح اسی موضوع پر ہے۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ 10: اہل کتاب کی دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کی عورتوں سے نکاح بھی حلال ہے ؛ لیکن یہاں بھی دو اہم نکتے یاد رکھنے ضروری ہیں، ایک یہ کہ یہ حکم ان یہودی یا عیسائی خواتین کا ہے جو واقعی یہودی یا عیسائی ہوں، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا مغربی ممالک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں مردم شماری کے حساب سے تو انہیں عیسائی یا یہودی گنا گیا ہے ؛ لیکن نہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ کسی پیغمبر یا کسی آسمانی کتاب پر، ایسے لوگ اہل کتاب میں شامل نہیں ہیں، نہ انکا ذبیحہ حلال ہے، اور نہ ایسی عورتوں سے نکاح حلال ہے، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی عورت واقعی یہودی یا عیسائی ہو ؛ لیکن اس بات کا قوی خطرہ ہو کہ وہ اپنے شوہر یا بچوں پر اثر ڈال کر انہیں اسلام سے دور کردے گی توایسی عورت سے نکاح کرنا گناہ ہوگا، یہ اور بات ہے کہ اگر کسی نے نکاح کرلیا تو نکاح منعقد ہوجائے گا اور اولاد حرام نہیں کہا جائے گا، آج کل چونکہ مسلمان عوام میں اپنے دین کی ضروری معلومات اور ان پر عمل کی بڑی کمی ہے اس لئے اس معاملہ میں بہت احتیاط لازم ہے۔