اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ہمیں سیدھے راستے کی راہنمائی فرما
(تفسیر آیت 3 اور 4: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ کا بقیہ حصہ): (2)۔ ہندوستانی تصور : ہندوستان کے تصور الوہیت کی تاریخ متضاد تصوروں کا ایک حیرت انگیز منظر ہے۔ ایک طرف اس کا توحیدی فلسفہ ہے، دوسری طرف اس کا عملی مذہب ہے۔ توحیدی فلسفہ نے استغراق فکر و عمل کے نہایت گہرے اور دقیق مرحلے طے کیے اور معاملہ کو فکری بلندیوں کی ایک ایسی اونچی سطح تک پہنچا دیا جس کی کوئی دوسری مثال ہمیں قدیم قوموں کے مذہبی تصورات میں نہیں ملتی۔ عملی مذہب نے اشراک اور تعدد الہ کی بے روک راہ اختیار کی اور اصنامی تصوروں کو اتنی دور تک پھیلنے دیا کہ ہر پتھر معبود ہوگیا، ہر درخت خدائی کرنے لگا، اور ہر چوکھٹ سجدہ گاہ بن گئی۔ وہ بیک وقت زیادہ سے زیادہ بلندی کی طرف بھی ڑا اور زیادہ سے زیادہ پستی میں بھی گرا۔ اس کے خواص نے اپنے لیے توحید کی جگہ پسند کی اور عوام کے لیے اشراک اور اصنام پرستی کی راہ مناسب سمجھی۔ اوپانی شد کا توحیدی اور وحدۃ الوجودی تصور : رگ وید کے زمزموں میں ہمیں ایک طرف مظاہر قدرت کی پرستش کا ابتدائی تصور بتدریج پھیلتا اور متجسم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف ایک بالاتر اور خالق کل ہستی کا توحیدی تصور بھی آہستہ آہستہ ابھرتا نظر آتا ہے۔ خصوصا دسویں حصے کے زمزموں میں تو اس کی نمود صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ توحیدی تصور کسی بہت پرانے گذشتہ عہد کے بنیادی تصور کا بقیہ تھا یا مظاہر قدرت کی کثرت آرائیوں کا تصور اب خود بکثرت سے وحدت کی طرف ارتقائی قدم اٹھانے لگا تھا؟ اس کا فیصلہ مشکل ہے لیکن بہرحال ایک ایسے قدیم عہد میں بھی جبکہ رگ وید کے تصوروں نے نظم و سخن کا جامہ پہننا شروع کیا تھا توحیدی تصور کی جھلک صاف صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ خداؤں کا وہ ہجوم جس کی تعداد تین سو تینتیس یا اسی طرح کی ثلاثی کثرت تک پہنچ گئی تھی بالآخر تین دائروں میں سمٹنے لگا یعنی زمین، فضا، اور آسمان میں (رگ وید حصہ سوم 9۔9) اور پھر اس نے ایک رب الاربابی تصور (Henotheism) کی نوعیت پیدا کرلی (رب الاربابی تصور سے مقصود تصور کی وہ نوعیت ہے جب خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے خداؤں میں ایک خدا سب سے بڑا ہے اور چھوٹے خداؤں کو اس کے ماتحت رہنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ یونانیوں اور رومیوں کا عقیدہ مشتری کی نسبت تھا)۔ پھر یہ رب الاربابی تصور اور زیادہ سمٹنے لگتا ہے اور ایک سب سے بڑی اور سب پر چھائی ہوئی ہستی نمایاں ہونے لگتی ہے۔ یہ ہستی کبھی "درون" میں نظر آتی ہے، کبھی "اندر" میں اور کبھی "اگنی" میں لیکن بالآخر ایک خالق کل ہستی کا تصور پیدا ہوجاتا ہے جو "پرجایتی" (پروردگار عالم) اور "وشواکرمن" (خالق کل) کے نام سے پکاری جانے لگتی ہے اور جو تمام کائنات کی اصل و حقیقت ہے۔ "وہ ایک ہے مگر علم والے اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں : اگنی، یم، ماتری شوان" (164۔46)۔ "وہ ایک نہ تو آسمان ہے نہ زمین ہے۔ نہ سورج کی روشنی ہے نہ ہوا کا طوفان ہے۔ وہ کائنات کی روح ہے۔ تمام قوتوں کا سرچشمہ۔ ہمیشگی۔ لازوالی۔ وہ کیا ہے؟ وہ شاید رٹ ہے جوہر کے روپ میں۔ ادیتی ہے روحانیت کے بھیس میں۔ وہ بغیر سانس کے سانس لینے والی ہستی" (حصہ دہم۔121۔2)۔ " ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ ہم اسے پوری طرح بتلا نہیں سکتے" (ایضاً۔121)۔ "وہ ایکم ست" ہے۔ یعنی حقیقت یگانہ۔ الحق۔ یہی وحدت ہے جو کائنات کی تمام کثرت کے اندر دیکھی جاسکتی ہے۔ (رگ وید اور اوپانی شد کے مطالب کے لیے ہم نے حسب ذیل مصادر سے مدد لی ہے دی ویدک ہیمز : (Maxmuller)۔ دی ریلیجن آف دی وید : (Bloomfield)۔ دی رگ وید : (Kaeigi)۔ لیکچرز آن دی رگ وید : (Ghate)۔ دی فلاسفی آف اوپانی شد : (Deussen)۔ دی تھرٹین پرنسپل اوپانی شد : (Hume) یہی مبادیات ہیں جنہوں نے اوپانی شدوں میں توحید وجودی (Pantheism) کے تصور کی نوعیت پیدا کرلی اور پھر ویدانت کے مابعد الطبیعات (Metaphysics) نے انہی بنیادوں پر استغراق فکر و نظر کی بڑی عمارتیں تیار کردیں۔ وحدۃ الوجودی اعتقاد ذات مطلق کے کشفی مشاہدات پر مبنی تھا۔ نظری عقائد کو اس میں دخل نہ تھا۔ اس لیے اصلاً یہاں صفات آرائیوں کی گنجائش ہی نہ تھی اور اگر تھی بھی تو صرف سلبی صفات (Negative Attributes) ہی ابھر سکتی تھیں۔ ایجابی (Positive) صفات کی صورت آرائی نہیں کی جاسکتی تھی۔ یعنی یہ تو کہا جاسکتا تھا کہ وہ ایسا نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ ایسا ہے اور ایسا ہے۔ کیونکہ ایجابی صفات کا جو نقشہ بھی بنایا جائے گا وہ ہمارے ذہن و فکر ہی کا بنایا ہوا نقشہ ہوگا اور ہمارا ذہن و فکر امکان و اضافت کی چار دیواری میں اس طرح مقید ہے کہ مطلق اور غیر محدود حقیقت کا تصور کر ہی نہیں سکتا۔ وہ جب تصور کرے گا تو ناگزیر ہے کہ مطلق کو مشخص بنا کر سامنے لائے، اور جب تشخص آیا تو طلاق باقی نہیں رہا۔ بابا افغانی نے دو مصرعوں کے اندر معاملہ کی پوری تصویر کھینچ دی تھی : مشکل حکایتیست کہ ہر ذرہ عین اوست۔ اما نمی تواں کہ اشارت بہ او کنند۔ یہی وجہ ہے کہ اوپانی شد نے پہلے ذات مطلق (برہمان) کو ذات مشخص (ایشور) کے مرتبہ میں اتارا اور جب اطلاق نے تشخص کا نقاب چہرہ پر ڈال لیا تو پھر اس نقاب چہرہ کی صفتوں کی نقش آرائیاں کی گئیں اور اس طرح وحدۃ الوجودی عقیدہ نے ذات مشخص و متصف (ساگون) کے تصور کا مقام بھی مہیا کردیا۔ (ہمارے صوفیائے کرام نے اسی صورت حال کو یوں تعبیر کیا ہے۔ کہ "احدیت" نے مرتبہ "واحدیت" کی تجلی میں نزول کیا۔ "احدیت" یعنی یگانہ ہونا۔ "واحدیت" یعنی اول ہونا۔ یگانہ ہستی کو ہم اول نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ اول جبھی ہوگا جب دوسرا، تیسرا اور چوتھا بھی ہو اور یگانگی بخت کے مرتبہ میں دوسرے اور تیسرے کی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن جب "احدیت" نے "واحدیت" کے مرتبہ میں نزول کیا تو اب "اب ھوالاول" کا مرتبہ ظہور میں آگیا۔ اور جب اول ہوا تو دوسرے، تیسرے اور چوتھے کے تعینات بھی ظہور میں آنے لگے۔ وما املح قوال الشاعر العارف : دریائے کہن چو برزند موجہ نو : مش خوانند وفی الحقیقت دریاست) جب ان صفات کا ہم مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ ایک نہایت بلند تصور سامنے آجاتا ہے جس میں سلبی اور ایجابی دونوں طرح کی صفتیں اپنی پوری نموداریاں رکھتی ہیں۔ اس کی ذات یگانہ ہے۔ اس ایک کے لیے دوسرا نہیں۔ وہ بے ہمتا ہے۔ بے مثال ہے۔ ظرف و زمان اور مکان کے قیود سے بالاتر۔ ازلی وابدی۔ ناممکن الادراک۔ واجب الوجود۔ وہی پیدا کرنے والا ہے، وہی حفاظت کرنے والا، اور وہی فنا کردینے والا۔ وہ علۃ العلل اور علت مطلقہ ("اپادنا" اور "نیمتتا کارنا") ہے۔ تمام موجودات اسی سے بنیں، اسی سے قائم رہتی ہیں اور پھر اسی کی طرف لوٹنے والی ہیں۔ وہ نور ہے۔ کمال ہے حسن ہے۔ سر تا سر پاکی ہے۔ سب سے زیادہ طاقتور، سب سے زیادہ رحم و محبت والا، ساری عبادتوں اور عاشقیوں کا مقصود حقیقی ! لیکن ساتھ ہی دوسری طرف یہ حققیت بھی ہمیں صاف صاف دکھائی دیتی ہے کہ توحیدی تصور کی یہ بلندی بھی اشراک اور تعدد کی آمیزش سے خالی نہیں رہی، اور توحید فی الذات کے ساتھ توحید فی الصفات کا بے میل عقیدہ جلوہ گر نہ ہوسکا۔ زمانہ حال کے ایک قابل ہندو مصنف کے لفظوں میں دراصل اشراکی اور تعددی تصور (Polytheistic) ہندوستانی دل و دماغ میں اس درجہ جڑ پکڑ چکا تھا کہ اب اسے یک قلم اکھاڑ کے پھینک دینا آسان نہ تھا۔ اس لیے ایک یگانہ ہستی کی گلوہ طرازی کے بعد بھی دوسرے خدا نابود نہیں ہوگئے۔ البتہ اس یگانہ ہستی کا قبضہ اقتدار ان سب پر چھا گیا اور سب اس کی ماتحتی میں آگئے۔ (پروفیسراس۔ رادھا کرشناں : انڈین فلاسفی جلد اول صفحہ 144۔ طبع ثانی) اب اس طرح کی تصریحات بھی ہمیں ملنے لگتی ہیں کہ بغیر اس بالا تر ہستی (برہماں) کے "اگنی" دیبی کچھ نہیں کرسکتی " یہ اسی (برہماں) کا خوف ہے جو تمام دیوتاؤں سے ان کے فرائض منصبی انجام دلاتا ہے" (یتترا اوپانی شد) راجہ اشواپتی نے جب پانچ گھر والوں سے پوچھا۔ " تم اپنے دھیان میں کسی کی پرستش کرتے ہو؟ تو ان میں سے ہر ایک نے ایک ایک دیوتا کا نام لیا۔ اس پر اشوایتی نے کہا تم میں سے ہر نے حقیقت کے صرف ایک ہی حصہ کی پرستش کی حالانکہ وہ سب کے ملنے سے شکل پذیر ہوتی ہے۔ "اندر" اس کا سر ہے۔ "سوریہ" (سورج) اس کی آنکھیں ہیں۔ "وایو" سانس ہے۔ "آکاش" (ایتھر) جسم ہے۔ "دھرتی" (زمین) اس کا پاؤں ہے" (ایضاً) (اگر اوپانی شد کی اشراکی لچک کے دوسرے صریح شواہد موجود نہ ہوتے تو اس طرح کی تصریحات بآسانی مجازات پر محمول کی جاسکتی تھیں۔ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اوپانی شد ایک سو آٹھ ہیں اور مختلف عہدوں میں مرتب ہوئے ہیں۔ ہر اوپانی شد اپنے عہد کے تدریجی تصورات و مباحث کے اثرات پیش کرتا ہے اور یہاں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ان نتائج پر مبنی ہے جو مجموعی حیثیت سے نکالے گئے ہیں) لیکن پھر ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ جب حقیقت کی قیومیت اور احاطہ پر زور دیا جاتا ہے تو تمام موجودات کے ساتھ دیوتاؤں کی ہستی بھی غائب ہوجاتی ہے کیونکہ تمام موجودات اسی پر موقوف ہیں۔ وہ کسی پر موقوف نہیں۔ ج"جس طرح رگھ کے پہیے کی تمام شاخیں ایک دائرہ کے اندر اپنا وجود رکھتی ہیں اسی طرح تمام چیزیں، تمام دیوتا، تمام دنیائیں اور تمام آلات اسی ایک وجود کے اندر ہیں" (برہادریناک اوپانی شد باب 2۔5)۔ یہاں وہ درخت موجود ہے جس کی جڑ اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور شاخین نیچے کی طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ برہماں ہے لافانی۔ تمام کائنات اس میں ہے۔ کوئی اس سے باہر نہیں " (تیتترا۔1۔10) یہاں ہم مصنف موصوف کے الفاظ پھر مستعار لیتے ہیں " یہ در اصل ایک سمجھوتا تھا جو چند خاص دماغوں کے فلسفیانہ تصور نے انسانی بھیڑ کے وہم پرستانہ ولولوں کے ساتھ کرلیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواص اور عوام کی فکر موافقت کی ایک آب و ہوا پیدا ہوگئی اور وہ برابر قائم رہی"۔ (ویدانت پاری جات سورابھ جلد سوم صفحہ 25۔ اس کا انگریزی ترجمہ مترجمہ ڈاکٹر رومابوس، رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال نے حال میں شائع کیا ہے) آگے چل کر ویدانت کے فلسفہ نے بڑی وسعتیں اور گہرائیاں پیدا کیں لیکن خواص کے توحیدی تصور میں عوام کے اشراکی تصور سے مفاہمت کا جو میلان پیدا ہوگیا تھا وہ متزلزل نہ ہوسکا۔ بلکہ اور زیادہ مضبوط اور وسیع ہوتا گیا۔ یہ بات عام طور پر تسلیم کرلی گئی کہ سالک جب عرفان حقیقت کی منزلیں طے کرلیتا ہے تو پھر ماسوی کی تمام ہستیاں معدوم ہوجاتی ہیں اور ماسوی میں دیوتاؤں کی ہستیاں بھی داخل ہیں۔ گویا دیوتاؤں کی ہستیاں مظاہرہ وجود کی ابتدائی تعینات ہوئیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بنیاد بھی برابر قائم رکھی گئی کہ جب تک اس آخری مقام عرفان تک رسائی حاصل نہ ہوجائے دیوتاؤں کی پرستش کے بغیر چارہ نہیں اور ان کی پرستش کا جو نظام قائم ہوگیا ہے اسے چھیڑنا نہیں چاہیے۔ اس طرح گویا ایک طرح کے توحیدی، اشراکی تصور (Monotheistic-Polytheism) کا مخلوط مزاج پیدا ہوگیا جو بیک وقت فکر و نظر کا توحیدی تقاضا بھی پورا کرنا چاہتا تھا اور ساتھ ہی اصنامی عقائد کا نظام عمل بھی سنبھالے رکھنا چاہتا تھا۔ ویدانت کے بعض مذہبوں میں تو یہ مخلوط نوعیت بنیادی تصوروں تک سرایت کرگئی۔ مثلاً نیمبارک اور اس کا شاگرد سری نواس برہم سوتر کی شرح کرتے ہوئے ہمیں بتلاتے ہیں کہ "اگرچہ برہام یا کرشن کی طرح کوئی نہیں مگر اس سے ظہور میں آئی ہوئی دوسری قوتیں بھی ہیں جو اس کے ساتھ اپنی نمود رکھتی ہیں اسی طرح کی کارفرمائی میں شریک ہیں۔ چنانچہ کرشن کے بائیں طرف رادھا ہے۔ یہ بخشش و نوال کی ہستی ہے۔ تمام نتائج و ثمرات بخشنے والی۔ ہمیں چہایے کہ برہما کے ساتھ رادھا کی بھی پرستش کریں۔ اس موقع پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فطرت کائنات کے جن قوائے مدبرہ کو سامی تصور نے "ملاک : اور "ملائکہ" سے تعبیر کیا تھا، اسی کو آریائی تصور نے "ویو" اور "یزتا" سے تعبیر کیا۔ یونانیوں کا ج"تھیوس" رومیوں کا ڈے یوس (Deus) پارسیوں کا "یزتا" (یزداں) سب کے اندر وہی ایک بنیادی مادہ اور وہی ایک بنیادی تصور کرم کرتا رہا۔ سنسکرت میں "ویو" ایک لچکدار لفظ ہے جو متعدد معنوں میں مستعمل ہوا ہے لیکن جب مافوق الفطرت ہستیوں کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی ایک ایسی غیر مادی اور روحانی ہستی کے ہوجاتے ہیں جو اپنے وجود میں روشن اور درخشاں ہو۔ سامی ادیان نے ان روحانی ہستیوں کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں دیکھی کہ وہ خدا کی پیدا کی ہوئی کارکن ہستیاں ہیں َ لیکن آریائی تصور نے ان میں تدبیر و تصرف کی بالاستقلال طاقتیں دیکھیں اور جب توحیدی تصوری کے قیام سے وہ استقلال باقی نہیں رہا تو توسل اور تزلف کا درمیانی مقام انہوں نے پیدا کرلیا۔ یعنی اگرچہ وہ خود خدا نہیں ہیں لیکن خدا تک پہنچنے کے لیے ان کی پرستش ضروری ہوئی۔ ایک پرستار کی پرستش اگرچہ ہوگی معبود حقیقی کے لیے مگر ہوگی انہی کے آستانوں پر۔ ہم براہ راست خدا کے آستانے تک پہنچ نہیں سکتے ہمیں پہلے دیوتاؤں کے آستانوں کا وسیلہ پکڑنا چاہیے۔ در اصل یہی توسل و تزلف کا عقیدہ جس نے ہر جگہ توحیدی اعتقاد و عمل کی تکمیل میں خلل ڈالا۔ ورنہ ایک خدا کی یگانگی اور بالاتری سے تو کسی کو بھی انکار نہ تھا۔ عرب جاہلیت کے بت پرستوں کا بھی یہی عقیدہ قرآن نے نقل کیا ہے کہ (ما نعبدھم الا لقربونا الی اللہ زلفی) (39۔3) بہرحال شرک فی الصفات اور شرک فی العبادت کا یہی وہ عنصری مادہ تھا جس نے ہندوستان کے عملی مذہب کو سرتاسر اشراک اور اصنام پرستی کے عقائد سے معمور کردیا اور بالآخر یہ صورت حال اس درجہ گہری اور عام ہوگئی کہ جب تک ایک سراغ رساں جستجو اور تفحص کی دور دراز مسافتیں طے نہ کرلے ہندو عقیدہ کے توحیدی تصور کا کوئی نشان نہیں پاسکتا۔ توحیدی تصور نے یہاں ایک ایسے رازز کی نوعیت پیدا کرلی جس تک صرف خاص خاص عارفوں ہی کی رسائی ہوسکتی ہے۔ ہم اس کا سراغ پہاڑوں کے غاروں میں پا سکتے ہیں لیکن کوچہ و بازار میں نہیں پاسکتے۔ گیارھویں صدی مسیحی میں جب ابوریحان البیرونی ہندوستان کے علوم و عقائد کے سراغ میں نکلا تھا تو یہ متضاد صورت حال دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ سولہویں صدی میں ویسی ہی حیرانی ابوالفضل کو پیش آئی، اور پھر اٹھارہویں صدی میں سر ولیم جونس کو۔ بہترین معذرت جو اس صورت حال کی کی جاسکتی ہے وہ وہی ہے جس کا اشارہ گیتا کے شہرۂ آفاق ترانوں میں ہمیں ملتا ہے اور جس نے البیرونی کے فلسفیانہ دماغ کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔ یعنی یہاں پہلے دن سے عقائد و عمل کی مختلف راہیں مصلحتاً کھلی رکھی گئیں تاکہ خواص اور عوام دونوں کی فہم و استعداد کی رعایت ملحوظ رہے۔ توحیدی تصور خواص کے لیے تھا کیونکہ وہی اس بلند مقام کے متحمل ہوسکتے تھے۔ اصنامی تصور عوام کے لیے تھا کیونکہ ان کی طفلانہ عقول کے لیے یہی راہ موزوں تھی۔ اور پھر چونکہ خواص بھی جمعیت و معاشرت کے عام ضبط و نظم سے باہر نہیں رہ سکتے، اس لیے عملی زندگی میں انہیں بھی اصنام پرستی کے تقاضے پورے کرنے ہی پڑتے تھے۔ اور اس طرح ہندو زندگی کی بیرونی وضع و قطع بلا استثنا اشراک اور اصنام پرستی ہی کی رہتی آئی۔ البیرونی نے حکمائے یونان کے اقوال نقل کر کے دکھایا ہے کہ اس بارے میں ہندوستان اور یونان دونوں کا حال ایک ہی طرح کا رہا۔ پھر گیتا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "بہت سے لوگ مجھ تک (یعنی خدا تک) اس طرح پہنچنا چاہتے ہیں کہ میرے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں لیکن میں ان کی مرادیں بھی پوری کردیتا ہوں۔ کیونکہ میں ان سے اور ان کی عبادت سے بے نیاز ہوں" (البیرونی نے کتاب الہند ص 59 میں بعض سنسکرت کتابوں سے بتوں کے بنانے کے احکام و قواعد نقل کیے ہیں َ اس کے بعد لکھتا ہے وکان الفرض فی حکایۃ ھذا الھذیان ان تعرف الصورۃ من صنمہا اذا شوھد، ولیتحقق ما قلنا من ان ھذہ الصنام للعوام الذین سفلت مراتبہم وقصرت معارفہم، فما عمل صنم قط باسلم من علا المادۃ فضلا عن اللہ تعالیٰ ولیعرف کیف بعید السف بالتمویھات، وکذلک قیل فی کتاب گیتا ان کثیرا من الناس یتقربون می مباغیہم الی بغیری، یتوسلون بالصدقات والتسیح والصلوۃ لسوای فاقویہم علیہا، واوفقہم لہا، واوصلہم الی ارادتہم لا استغنائی عنہم۔ آج کل کے تمام ہندو اہل نظر جو ہندو عقائد و تصورات کی فلسفیانہ تعبیر کرنی چاہتے ہیں عموما یہی توجیہ پیش کرتے ہیں جو الیبرونی نے پیش کی تھی۔ ابوالفضل اور دارا شکوہ نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے)۔ بے محل نہ ہوگا اگر اس موقع پر زمانہ حال کے ایک ہندو مصنف کی رائے پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ گوتم بدھ کے ظہور سے پہلے ہندو مذہب کے تصور الوہیت نے جو عام و شکل و صورت پیدا کرلی تھی اس پر بحث کرتے ہوئے یہ قابل مصنف لکھتا ہے : "گوتم بدھ کے عہد میں جو مذہب ملک پر چھایا ہوا تھا اس کے نمایاں خط و خال یہ تھے کہ لین دین کا ایک سودا تھا جو خدا اور انسانوں کے درمیان ٹھہر گیا تھا۔ جب کہ ایک طرف اوپانی شد کا برہماں تھا جو ذات الوہیت کا ایک اعلی اور شائستہ تصور پیش کرتا تھا تو دوسری طرف ان گنت خداؤں کا ہجوم تھا جن کے لیے کوئی حد بندی نہیں ٹھہرائی جاسکتی تھی۔ آسمان کے سیارے، مادہ کے عناصر، زمین کے درخت، جنگل کے حیوان، پہاڑوں کی چٹانیں، دریاؤں کی جدولیں، غرض کہ موجودات خلقت کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو خدائی حکومت میں شریک نہ کرلی گئی ہو۔ گویا ایک بے لگام اور خود رو تخیل کو پروانہ مل گیا تھا کہ دنیا کی جتنی چیزوں خدائی مسند پر بٹھا سکتا ہے بے روک ٹوک بٹھاتا رہے۔ پھر جیسے خداؤں کی یہ بے شمار بھیڑیں بھی اس کے ذوق خدا سازیکے لیے کافی نہ ہوئی ہوں۔ طرح طرح کے عفریتوں اور عجیب الخلقت جسموں کی متخیلہ صورتوں کا بھی ان پر اضافہ ہوتا رہا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اوپانی شدوں نے فکر و نظر کی دنیا میں ان متخیلہ صورتوں کا بھی ان پر اضافہ ہوتا رہا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اوپانی شدوں نے فکر و نظر کی دنیا میں ان خداؤں کی سلطانی برہم کردی تھی۔ لیکن عمل کی زندگی میں انہیں نہیں چھیڑا گیا۔ وہ بدستور اپنی خدائی مسندوں پر جمے رہے" (پروفیسراس۔ رادھا کرشناں۔ انڈین فلاسفی جلد اول صفحہ 453۔ طبع ثانی) شمنی مذہب اور اس کے تصورات : قدیم برہمنی مذہب کے بعدشمنی مذہب (یعنی بدھ مذہب) کا ظہور ہوا۔ اسلام کے ظہور سے پہلے ہندوستان کا عام مذہب یہی تھا۔ شمنی مذہب کی اعتقادی مبادیات کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ انیسویں صدی کے مستشرقوں کے ایک گروہ نے اسے اوپانی شدوں کی تعلیم ہی کا ایک عملی استغراق قرار دیا تھا اور خیال کیا تھا کہ "نروان" میں جذب و انفصال کی روحانی اصل پوشیدہ ہے۔ یعنی جس سرچشمہ سے انسانی ہستی نکلی ہے۔ پھر اسی میں واصل ہوجانا "نروان" یعنی نجات کامل ہے۔ لیکن اب عام طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ شمنی مذہب خدا اور روح کی ہستی کا کوئی تصور نہیں رکھتا۔ اس کا دائرہ اعتقاد و عمل صرف زندگی کی سعادت اور نجات کے مسئلہ میں محدود ہے۔ وہ صرف پر کرتی یعنی مادہ ازلی کا حوالہ دیتا ہے جسے کائناتی طبیعت حرکت میں لاتی ہے۔ "نرون" سے مقصود یہ ہے کہ ہستی کی انانیت فنا ہوجائے اور زندگی کے چکر سے نجات مل جائے۔ اس میں شک نہیں کہ جہاں تک مابعد زمانے کے شمنی مکروں کی تصریحات کا تعلق ہے یہی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اگر ان کا ایک گروہ لا ادریت (Agnosticism) تک پہنچ کر رک گیا ہے تو دوسرا گروہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے اور مدعیانہ انکار کی راہ اختیار کی ہے۔ موکشا آکر گپتا نے "ترک بھاشا" میں ان تمام دلائل کا رد کیا۔ (یہ قدیم کتاب جس کا صرف تبتی نسخہ دنیا کے علم میں آیا تھا اب اصل سنسکرت میں نکل آئی ہے اور گائیکواڑ اور ینٹیل سیریز کے ادارے نے حال میں شائع کردی ہے۔ میسور کا مشرقی کتب خانہ بھی اس کا ایک دوسرا نسخہ اشاعت کے لیے مرتب کررہا ہے۔) جونیائے اور ویشییسک طریق نظر کے نظار خدا کی ہستی کے اثبات میں پیش کرتے تھے ("نیائے" یعنی منطق "ویشیسک" طریق نظر سے مقصود منطقی نقد و تحلیل کا ایک خاص مسلک ہے، گوتم بدھ کی تعلیم میں "اشٹانگ مارگ" یعنی آٹھ باتوں کا طریقہ ایک بنیادی اصل ہے۔ آٹھ باتوں سے مقصود علم و عمل کا تزکیہ و طہارت ہے۔ علم حق، رحم و شفقت، قربابنی، ہوا و ہوس سے آزادی خودی کو مٹانا وغیرہ)۔ تاہم یہ بات بھی قطعی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ خود گوتم بدھ کا سکوت و توقف بھی انکار ہی پر مبنی تھا۔ اس کے سکوتی تحفظات متعدد مسئلوں میں ثابت ہیں اور اس کے متعدد محمل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اگر ان تمام اقوال پر جو براہ راست اس کی طرف منسوب ہیں غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا مسلک نفی ذات کا نہ تھا۔ نفی صفات کا تھا۔ اور نفی صفات کا مقام ایسا ہے کہ انسانی فکر و زبان کی تمام تعبیرات معطل ہوجاتی ہیں اور سکوت کے سوا چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ علاوہ بریں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس کے ظہور کے وقت اصنامی خدا پرستی کے مفاسد بہت گہرے ہوچکے تھے اور اصنامی خدا پرستی بجائے خود راہ حقیقت کی سب سے بڑی روک بن گئی تھی۔ اس نے اس روک سے راستہ صاف کردینا چاہا اور تمام توجہ زندگی کی عملی سعادت کے مسئلہ پر مرکوز کردی۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ برہمنی خدا پرستی کے عقائد سے انکار کیا جائے اور اس پر زور دیا جائے کہ نجات کی راہ ان معبودوں کی پرستش میں نہیں ہے بلکہ علم حق اور عمل حق میں ہے۔ یعنی "اشٹانگ مارگ" میں ہے۔ آگے چل کر اس اصنافی انکار نے مطلق انکار کی شکل پیدا کرلی اور پھر برہمنی مذہب کی مخالفت کے غلو نے معاملہ کو دور تک پہنچا دیا۔ (میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرا ذاتی استنباط ہے اور مجھے حق نہیں کہ اپنی رائے کو وثوق کے ساتھ ان محققوں کے مقابلہ میں پیش کروں جنہوں نے اس موضوع کے مطالعہ میں زندگیاں بسر کردی ہیں۔ تاہم میں مجبور ہوں کہ اپنی محدود و معلومات کی روشنی میں جن نتائج تک پہنچا ہوں ان سے دست بردار نہ ہوں۔ یورپ کے محققوں نے بدھ مذہب کے مصادر کی جستجو و فراہمی میں بڑی کدوکاوش کی ہے اور پالی زبان کے تمام اہم مصادر فرنچ یا انگریزی میں منتقل کرلیے ہیں۔ میں نے حتی الامکان اس تمام مواد کے مطالعہ کی کوشش کی اور بالآخر اسی نتیجہ تک پہنچا) بہرحال خود گوتم بدھ اور اس کی تعلیم کے شارحوں کی تصریحات اس بارے میں کچھ ہی رہی ہوں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس کے پیرووں نے خدا کے تصور کی خالی مسند بہت جلد بھر دی۔ انہوں نے اس مسند کو خالی دیکھا تو خود گوتم بدھ کو وہاں لا کر بٹھا دیا اور پھر اس نئے معبود کی پرستش اس جوش و خروش کے ساتھ شروع کردی کہ آدھی سے زیادہ دنیا اس کے بتوں سے معمور ہوگئی ! آوارہ غربت نہ تواں دید صنم را۔ وقتست کہ دگر بتکدہ سازند حرم را ! گوتم بدھ کی وفات پر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ پیروان بدھ کی اکثریت نے اس کی شخصیت کو عام انسانی سطح سے بالاتر دیکھنا شروع کردیا تھا اور اس کے آثار و تبرکات کی پرستش کا میلان بڑھنے لگا تھا۔ اس کی وفات کے کچھ عرصہ بعد جب مذہب کی پہلی مجلس اعظم راج گیری میں منعقد ہوئی اور اس کے شاگرد خاص آنند نے اس کی آخری وصایا بیان کیں تو بیان کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی روایت پر مطمئن نہ ہوئے اور اس کے مخالف ہوگئے کیونکہ اس کی روایتوں میں انہیں وہ ماورائے انسانیت عظمت نظر نہیں آئی جسے اب ان کی طبیعت ڈھونڈنے لگی تھی۔ تقریباً سو برس بعد جب دوسری مجلس ویسالی (مظفر پورحالی) میں منعقد ہوئی تو اب مذہب کی بنیادی سادگی اپنی جگہ کھوچکی تھی اور اس کی جگہ نئے نئے تصوروں اور مخلوط عقیدوں نے لے لی تھی۔ اب مسیحی مذہب کے اقانیم ثلاثہ کی طرح جو پانچ سو برس بعد ظہور میں آنے والا تھا ایک شمنی اقانیم کا عقیدہ بدھ کی شخصیت کے گرد ہالے کی طرح چمکنے لگا اور عام انسانی سطح سے وہ ماورا تسلیم کرلی گئی۔ یعنی بدھ کی ایک شخصیت کے اندر تین وجودوں کی نمود ہوگئی۔ اس کی تلعیم کی شخصیت، اس کے دنیاوی وجود کی شخصیت اور اس کے حقیقی وجود کی شخصیت۔ یہ آخری شخصیت لوگ (بہشت) میں رہتی ہے۔ دنیا میں جب کبھی بدھ کا ظہور ہوتا ہے تو یہ اس حقیقی وجود کا ایک پرتو ہوتا ہے۔ نجات پانے کے معنی یہ ہوئے کہ آدمی حقیقی بدھ کے اسی ماورائے عالم مسکن میں پہنچ جائے۔ پہلی صدی مسیحی میں بعہد کوشان جب چوتھی مجلس برشاور (پشاور حالی) میں منعقد ہوئی تو اب بنیادی مذہب کی جگہ ایک طرح کا کلیسائی مذہب قائم ہوچکا تھا اور بدھ کے اشٹانگ مارگ (طریق ثمانیہ) کی عملی روح طرح طرح کی رسوم پرستیوں اور قواعد آرائیوں میں معدوم ہوچکی تھی۔ بالآخر پیروان بدھ دو بڑے فرقوں میں بٹ گئے۔ "ہینیان" اور "مہایان" پہلا فرقہ بدھ کی شخصیت میں ایک رہنما اور معلم کی انسانی شخصیت دیکھنا چاہتا تاھ لیکن دوسرے نے اسے پوری طرح ماورائے انسانیت کی ربانی سطح پر متمکن کردیا تھا اور پیروان بدھ کی عام راہ وہی ہوگئی تھی۔ افغانستان، بامیان، وسط ایشیا، چین، کوریا، جاپان اور تبت سب میں مہایان مذہب ہی کی تبلیغ و اشاعت ہوئی۔ چینی سیاح فاہین جب چوتھی صدی مسیح میں ہندوستان آیا تھا تو اس نے پورب کے ہینیان شمنیوں سے مباحثہ کیا تھا اور مہایان طریقہ کی صداقت کے دلائل پیش کیے تھے۔ موجودہ زمانے میں سیلون کے سوا جہاں ہینیان طریقے کا ایک محرف بقیہ "تھیراواد" کے نام سے پایا جاتا ہے تمام پیروان بدھ کا مذہب مہایان ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض محققین شمنیہ کا خیال ہے کہ اشوک کے زمانہ تک بدھ مذہب میں بت پرستی کا عام رواج نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ اس عہد تک کے جو بدھ آثار ملتے ہیں ان میں بدھ کی شخصیت کسی بت کے ذریعہ نہیں بلکہ صرف ایک کنول کے پھول یا ایک خالی کرسی کی شکل میں دکھائی گئی ہے۔ پھر کنول اور خالی کرسی کی جگہ دو قدم نمودار ہونے لگے اور پھر بتدریج قدموں کی جگہ خود بدھ کا پورا مجسمہ نمودار ہوگیا۔ اگر یہ استنباط صحیح تسلیم کرلیا جائے جب بھی ماننا پڑے گا کہ اشوک کے زمانے کے بعد سے بدھ کے بتوں کی عام پرستش جاری ہوگئی تھی۔ اشوک کا عہد 250 قبل از مسیح تھا۔ (3)۔ ایرانی مجوسی تصور : زردشت کے ظہور سے پہلے مادا (میڈیا) اور پارس میں ایک قدیم ایریانی طریق پرستش رائج تھا۔ ("ایرایان" وہی لفظ ہے جو ہندوستان میں "آریا" ہوگیا۔ اوستا میں چوبیس ملکوں کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سب سے پہلا اور سب سے بہتر "ایریاناویچ" ہے اور غالباً اس سے شمارلی ایران مقصود ہے (ویندیداد۔ فرگرداول۔ فقرہ 2) ہر مزدیشت کے فقرہ 21 میں "ایریاناویچ" کا ذکر کیا ہے اور اس پر درود بھیجا ہے۔ "ویچ" جرمن مستشرق اسپیگل کی قراءت ہے۔ آنک تیل نے اسے "ویگو" پڑھا تھا۔ "ویچ" یا "ویگو" کے معنی پہلو میں مبارک کے ہیں۔ یعنی مبارک ایریانی کی سرزمین)۔ ہندوستان کے ویدوں میں دیوتاؤں کی پرستش اور قربانیوں کے اعمال و رسوم جس طرح کے پائے جاتے ہیں قریب قریب ویسے ہی عقائد و رسوم پارس اور ماد میں بھی پھیلے ہوئے تھے۔ دیوتائی طاقتوں کو ان کے دو بڑے مظہروں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک طاقت روشن ہستیوں کی تھی جو انسان کو زندگی کی تمام خوشیاں بخشتی تھی۔ دوسری برائی کے تاریک عفریتوں کی تھی جو ہر طرح کی مصیبتوں اور ہلاکتوں کا سرچشمہ تھی۔ آگ کی پرستش کے لیے قربان گاہیں بنائی جاتی تھیں اور ان کے پجاریوں کو "موگوش" کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اوستا کے گاتھا میں انہٰں "کارپان" اور "کاوی" کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔ آگے چل کر اسی "موگوش" نے آتش پرستی کا مفہوم پیدا کرلیا اور غیرقو میں ایرانیوں کو "مگ" اور "مگوش" کے نام سے پکارنے لگیں۔ عربوں نے اسی "موگوش" کا 'مجوس" کردیا۔ مزدیسنا : زردشت کا جب ظہور ہوا تو اس نے ایرانیوں کو ان قدیم عقائد سے نجات دلائی اور "مزدیسنا" کی تعلیم دی۔ یعنی دیوتاؤں کی جگہ ایک خدائے واحد "اہورا مزد" کی پرستش کی۔ یہ اہورا مزدیگانہ ہے، بے ہمتا ہے، بے مثال ہے، نور ہے، پاکی ہے، سرتاسر حکمت اور خیر ہے، اور تمام کائنات کا خالق ہے۔ اس نے انسان کے لیے دو عالم بنائے ایک عالم دنیوی زندگی کا ہے دوسرا مرنے کے بعد کی زندگی کا۔ مرنے کے بعد جسم فنا ہوجاتا ہے مگر روح باقی رہتی ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا پاتی ہے۔ دیوتاؤں کی جگہ اس نے "امش سپدن" اور "یزتا" کا تصور پیدا کیا۔ یعنی فرشتوں کا، یہ فرشتے اہورا مزد کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ برائی اور تاریکی کی طاقتوں کی جگہ" انگرا مے نیوش" کی ہستی کی خبر دی۔ یعنی شیطان کی۔ یہی "انگرامے نیوش" پازند کی زبان میں "اہرمن" ہوگیا۔ زردشت کی تعلیم میں ہندوستانی آریاؤں کے ویدی عقائد کا رد صاف صاف نمایاں ہے۔ ایک ہی نام ایران اور ہندوستان دونوں جگہ ابھرتا ہے اور متضاد معنی پیدا کرلیتا ہے۔ اوِستا کا "اہورا" سام اور یجروید میں "اسورا" ہے اور اگرچہ رگ وید میں اس کا اطلاق اچھے معنوں پر ہوا تھا مگر اب وہ برائی کی شیطانی روح بن گیا ہے۔ ویدوں کا "اندرا" اوستا کا "انگرا" ہوگیا۔ ویدوں میں وہ آسمان کا خدا تھا۔ اوستا میں زمین کا شیطان ہے۔ ہندوستان اور یورپ میں "دیو" اور "ڈے یوس" اور "تھیوس" خدا کے لیے بولا گیا ہے لیکن ایران میں "دیو" کے معنی عفریتوں کے ہوگئے۔ گویا دونوں عقیدے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ ایک کا خدا دوسرے کا شیطان ہوجاتا تھا اور دوسرے کا شیطان پہلے کے لیے خدا کا کام دیتا تھا۔ اسی طرح ہندوستان میں "یم" موت کی طاقت ہے۔ اوستا کی روایتوں میں "یم" زندگی اور انسانیت کی سب سے بڑی نمود ہوئی اور پھر یہی "جم" "جم" ہو کر جمشید ہوگیا۔ فسانہا کہ ببازیچہ روزگار سرود کنوں بہ مسند جمشید و تاج کے بستند لیکن معلوم ہوتا ہے کہ چند صدیوں کے بعد ایران کے قدیم تصورات اور بیرونی اثرات پھر غالب آگئے اور ساسانی عہد میں جب "مزدیسنا" کی تعلیم کی ازسر نو تدوین ہوئی تو یہ قدیم مجوسی، یونانی اور زردشتی عقائد کا ایک مخلوط مرکب تھا اور اس کا بیرونی رنگ و روغن تو تمام تر مجوسی تصور ہی نے فراہم کیا تھا اسلام کا جب ظہور ہوا تو یہی مخلوط تصور ایران کا قومی مذہبی تصور تھا۔ مغربی ہند کے پارسی مہاجر یہی تصور اپنے ساتھ ہندوستان لائے اور پھر یہاں کے مقامی اثرات کی ایک تہہ اس پر اور چڑھ گئی۔ مجوسی تصور کی بنیاد ثنویت (Dualism) کے عقیدہ پر تھی۔ یعنی خیر اور شر کی دو الگ الگ قوتیں ہیں۔ اہورا مزد جو کچھ کرتا ہے خیر اور روشنی ہے۔ انگرامے نیوش یعنی اہرمن جو کچھ کرتا ہے شر اور تاریکی ہے۔ عبادت کی بنیاد سورج اور آگ کی پرستش پر رکھی گئی کہ روشنی یزدانی صفات کی سب سے بڑی مظہر ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ مجوسی تصور نے خیر اور شر کی گتھی یوں سلجھانی چاہی کہ کارخانہ ہستی کی سربراہی دو متقابل اور متعارض قوتوں میں تقسیم کردی۔ (4)۔ یہودی تصور : یہودی تصور ابتدا میں ایک محدود نسلی تصور تھا۔ یعنی کتاب پیدائش کا یہودا خاندان اسرائیل کے نسلی خدا کی حیثیت سے نمایاں ہوا تھا۔ لیکن پھر یہ تصور بتدریج وسیع ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ یشعیا دوم کے صحیفہ میں تمام قوموں کا خدا اور تمام قوموں کا ہیکل نمایاں ہوگیا۔ تاہم اسرائیلی خدا کا نسلی اختصاص کسی نہ کسی شکل میں برابر کام کرتا ہی رہا اور ظہور اسلام کے وقت اس کے نمایاں خال و خط نسل اور جغرافیہ ہی کے خال و خط تھے۔ (عہد عتیق میں یشعیا نبی کی طرف جو کتاب منسوب ہے اس کی زبان اور مطالب کا آیت 51 تک ایک خاص انداز ہے اور پھر اس کے بعد بالکل دوسرا ہوجاتا ہے۔ ابتدائی حصہ ایک ایسے شخص کا کلام معلوم ہوتا ہے جو قید بابل سے پہلے تھا۔ لیکن بعد کے قصہ میں قید بابل کے زمانے کے اثرات صاف صاف نمایاں ہیں۔ اس لیے انیسویں صدی کے نقادوں نے اسے دو شخصوں کے کلام میں تقسیم کردیا۔ ایک کو یشعیا اول اور دوسرے کو دوم سے تعبیر کرتے ہیں) تجسم اور تنزیہہ کے اعتبار سے وہ ایک درمیانی درجہ رکھتا تھا اور اس میں غالب عنصر قہر و غضب اور انتقام و تعذیب کا تھا۔ خدا کا بار بار متشکل ہو کر نمودار ہونا، مخاطبات کا تمام تر انسانی اوصاف و جذبات سے آلودہ ہونا، قہر و انتقام کی شدت اور ابتدائی درجہ کا تمثیلی اسلوب، تورات کے صحیفوں کا عام تصور ہے۔ خدا کا انسان سے رشتہ اس نوعیت کا رشتہ ہوا جیسے ایک شوہر کا اپنی بیوی سے ہوتا ہے۔ شوہر نہایت غیور ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کی ساری خطائیں معاف کردے گا لیکن یہ جرم معاف نہیں کرے گا کہ اس کی محبت میں کسی دوسرے مرد کو بھی شریک کرے۔ اسی طرح خاندان اسرائیل کا خدا بھی بہت غیور ہے اس نے اسرائیل کے گھرانے کو اپنی چہیتی بیوی بنایا اور چونکہ چہیتی بیوی بنایا اس لیے خاندان اسرائیل کی بے وفائی اور غیر قوموں سے آشنائی اس پر بہت ہی شاق گزرتی ہے۔ اور ضروری ہے کہ وہ اس جرم کے بدلے سخت سزائیں دے۔ چنانچہ احکام عشرہ (Ten Commandments) میں ایک حکم یہ بھی تھا "تو کسی چیز کی صورت نہ بنائیو اور نہ اس کے آگے جھکیو۔ کیونکہ میں خداوند تیرا خدا رشک کرنے والا ایک بہت ہی غیور خدا ہوں" (خروج۔ 21) شوہر کے رشتہ کی یہ تمثیل جو مصر سے خروج کے بعد متشکل ہونا شروع ہوگئی تھی آخر عہد تک کم و بیش قائم رہی۔ یہودیوں کی ہر گمراہی پر خدا کے غضب کا اظہار ایک غضبناک شوہر کا پرجوش اظہار ہوتا ہے جو اپنی چہیتی بیوی کو اس کی ایک ایک بے وفائی یاد دلا رہا ہو۔ یہ اسلوب تمثیل بظاہر کتنا ہی مؤثر اور شاعرانہ دکھائی دیتا ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ خدا کے تصور کے لیے ایک ابتدائی درجہ کا غیر ترقی یافتہ تصور تھا۔ (5)۔ مسیحی تصور : لیکن یشعیا دوم کے زمانے سے اس صورت حال میں تبدیلی شروع ہوئی اور یہودی تصور میں بیک وقت وسعت اور لطافت دونوں طرح کے عناصر نمایاں ہونے لگے۔ گویا اب ایک نئی تصوری فضا کے لیے زمانے کا مزاج تیار ہونے لگا تھا۔ چنانچہ مسیحیت آئی تو رحم و محبت اور عفو و بخشش کا ایک نیا تصور لے کر آئی۔ اب خدا کا تصور نہ تو جابر بادشاہ کی طرح قہر آلود تھا۔ نہ رشک و غیرت میں ڈوبے ہوئے شوہر کی طرح سخت گیر تھا بلکہ باپ کی محبت و شفقت کی مثال نمایاں کرتا تھا اور اس میں شک نہیں کہ یہودی تصور کی شدت و غلظت کے مقابلے میں رحم و محبت کی رقت کا یہ ایک انقلابی تصور تھا۔ انسانی زندگی کے سارے رشتوں میں ماں اور باپ کا رشتہ سب سے بلند تر رشتہ ہے اس میں شوہر کے رشتہ کی طرح جذبوں اور خواہشوں کی غرضوں کو دخل نہیں ہوتا۔ یہ سرتا سر رحم و شفقت اور پرورش و چارہ سازی ہوتی ہے۔ اولاد بار بار قصور کرے گی لیکن ماں کی محبت پھر بھی گردن نہیں موڑے گی اور باپ کی شفقت پھر بھی معافی سے انکار نہیں کرے گی۔ پس اگر خدا کے تصور کے لیے انسانی رشتوں کی مشابہتوں سے کام لیے بغیر چارہ نہ ہو تو بلاشبہ شوہر کی تمثیل کے مقابلہ میں باپ کی تمثیل کہیں زیادہ شائستہ اور ترقی یافتہ تمثیل ہے۔ (اسی لیے ہندو تصور نے ماں کی تشبیہ سے کام لیا کیونکہ ماں کی تشبیہ میں اگرچہ نسائیت آجاتی ہے لیکن تشبیہ باپ سے بھی زیادہ پر اثر ہوجاتی ہے۔ باپ کی شفقت کبھی کبھی جواب دے دے گی لیکن ماں کی محبت کی گہرائیوں کے لیے کوئی اتھاہ نہیں) تجسم اور تنزہ کے لحاظ سے مسیحی تصور کی سطح اصلاً وہی تھی جہاں تک یہودی تصور پہنچ چکا تھا مگر جب مسیحی عقائد کا ردی اصنام پرستی کے تصوروں سے امتزاج ہو تو اقانیم ثلاثہ، کفارہ اور مسیح پرستی کے تصورات چھا گئے اور اسکندریہ کے فلسفہ آمیز اصنامی تصور سراپیز (Serapis) نے مسیحی اصنامی تصور کی شکل اختیار کرلی۔ اب مسیحت کو بت پرستوں کی بت پرستی سے تو انکار تھا لیکن خود اپنی بت پرستی پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ میڈونا کے قدیم بت کی جگہ اب ایک نئی مسیحی میڈونا کا بت تیار ہوگیا۔ یہ خدا کے فرزند کو گود میں لیے ہوئے تھی اور ہر راسخ الاعتقاد مسیحی کی جبین نیاز کا سجدہ طلب کرتی تھی ! غرض کہ قرآن کا جب نزول ہوا تو مسیحی تصور رحم و محبت کی پدری تمثیل کے ساتھ اقانیم ثلاثہ، کفارہ، اور تجسم کا ایک مخلوط اشراکی۔ توحیدی تصور تھا۔ (6)۔ فلاسفہ یونان واسکندریہ کا تصور : ان تصوروں کے علاوہ ایک تصور فلاسفہ یونان کا بھی ہے جو اگرچہ مذاہب کے تصوروں کی طرح اقوام عالم کا تصور نہ ہوسکا تاہم انسان کی فکری نشوونما کی تاریخ میں اس نے بہت بڑا حصہ لیا اور اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تقریباً پانچ سو برس قبل از مسیح یونان میں توحید کا تصور نشوونما پانے لگا تھا۔ اس کی سب سے بڑی معلم شخصیت سقراط (Socrates) کی حکمت میں نمایاں ہوئی جسے افلاطون (Plato) نے تدوین و انضباط کے جامے سے آراستہ کیا۔ جس طرح ہندوستان میں رگ وید کے دیوبانی تصورات نے بالآخر ایک رب الاربابی تصور کی نوعیت پیدا کرلی تھی اور پھر اسی ربا الاربابی تصور نے بتدریج توحیدی تصور کی طرف قدم بڑھایا تھا ٹھیک اسی طرح یونان میں بھی المپس کے دیوتاؤں کو بالآخر ایک رب الارباب ہستی کے آگے جھکنا پڑا اور پھر یہ رب الاربابی تصور بتدریج کثرت سے وحد کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ یونان کے قدیم ترین تصوروں کے معلوم کرنے کا تنہا ذریعہ اس کی پرانی شاعری ہے۔ جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو دو عقیدے برابر پس پردہ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں : مرنے کے بعد کی زندگی اور ایک سب سے بڑی اور سب پرچھائی ہوئی الوہیت۔ آئیونی (Ionie) فلسفہ نے جو یونانی مذاہب فلسفہ میں سب سے زیادہ پرانا ہے اجرام سماوی کی ان دیکھی روحوں کا اعتراف کیا تھا اور پھر ان روحوں کے اوپر کسی ایسی روح کا سراغ لگانا چاہتا تھا جسے اصل کائنات قرار دیا جاسکے۔ پانچویں صدی قبل از مسیح میں فیثا غورس (Pythagoras) کا ظہور ہوا اور اس نے نئے نئے فکری عنصروں سے فلسفہ کو آشنا کیا۔ فیثا غورث کے سفر ہند کی روایت صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے فلسفیانہ تصوروں میں ہندوستانی طریق فکر کی مشابہتیں پوری طرح نمایاں ہیں۔ تناسخ کا غیر مشتبہ عقیدہ، پانچویں آسمانی عنصر (Quintaessesntia) کا اعتراف، نفس انسانی کی انفرادیت کا تصور، مکاشفاتی طریق ادراک کی جھلک اور سب سے زیادہ یہ کہ ایک "طریق زندگی" کے ضابطہ کا اہتمام، ایسے مبادیات ہیں جو ہمیں اوپانی شد کے دائرہ فکر و نظر سے سے بہت قریب کردیتے ہیں۔ فیثا غورس کے بعد انکسا غورس (Anaxagoras) نے ان مبادیات کو کلیاتی (Abstracts) تصورات کی نوعیت کا جامہ پہنایا اور اس طرح یونانی فلسفے کی وہ بنیاد استوار ہوگئی جس پر آگے چل کر سقراط اور افلاطون اپنی کلیاتی تصورتی کی عمارتیں کھڑی کرنے والے تھے۔ سقراط کی شخصیت میں یونان کے توحیدی اور تنزیہی اعتقاد کی سب سے بڑی نمود ہوئی۔ سقراط سے پہلے جو فلسفی گزرے تھے انہوں نے قومی پرستش گاہوں کے دیوتاؤں سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا۔ کیونکہ خود ان کے دل و دماغ بھی ان کے اثرات سے خالی نہیں ہوئے تھے۔ نفوس فلکی کے تصورات کی اگر اصل حقیقت معلوم کی جائے تو اس سے زیادہ نہیں نکلے گی کہ یونان کے کواکبی دیوتاؤں نے علم و نظر کے حلقوں سے روشناس ہونے کے لیے ایک نیا فلسفیانہ نقاب اپنے چہروں پر ڈال لیا تھا اور اب ان کی ہستی صرف عوم کو ہی نہیں بلکہ فلسفیوں کو بھی تسکین دینے کے قابل بناد گئی تھی۔ یہ تقریباً ویسی ہی صورت حال تھی جو ابھی تھوڑی دیر ہوئی ہم ہندوستان کی قدیم تاریخ کے صفحوں پر دیکھ رہے تھے۔ یعنی فکری غور و خوض کے نتائج ایک ایسی لچکدار صورت میں ابھرنے لگے کہ ایک طرف فلسفیانیہ دماغوں کے تقاضوں کا بھی جواب دیا جا سکے، دوسری طرف عوام کے قومی عقائد سے بھی تصادم نہ ہو۔ ہندوستان کی طرح یونان میں بھی خواص اور عوام کے فکر و عمل نے باہم دگر سمجھوتا کرلیا تھا۔ یعنی توحید اور اصنامی عقیدے ساتھ ساتھ چلنے لگے تھے۔ لیکن سقراط کا معنوی علو فکر اس عام سطح سے بہت بلند جا چکا تھا۔ وہ وقت کے اصنامی عقائد سے کوئی سمجھوتا نہیں کرسکا۔ اس کا توحیدی تصور تجسم اور تشبہ کی تمام آلودگیوں سے پاک ہو کر ابھرا۔ اس کی بے لوث خدا پرستی کا تصور اس درجہ بلند تھا کہ وقت کے عام مذہبہ تصورات اسے سر اونچا کر کے بھی دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس کی حقیقت شناس نگاہ میں یونان کی اصنامی خدا پرستی اس سے زیادہ کوئی اخلاقی بنیاد نہیں رکھتی تھی کہ ایک طرح کا دکاندارانہ لین دین تھا جو اپنے خود ساختہ معبودوں کے ساتھ چکایا جاتا تھا۔ افلاطون یوثی فرا (Euthyphro) کے مکالمہ میں ہمیں صاف صاف بتلاتا ہے کہ یونان کے دینی تصورات و اعمال کی نسبت سقراط کے بے لاگ فیصلے کیا تھے؟ سقراط پر مذہبی بے احترامی کا الزام لگایا گیا تھا۔ وہ پوچھتا ہے کہ "مذہبی احترام" کی حقیقت کیا ہے؟ پھر جو جواب ملتا ہے وہ اسے اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ "مذہبی احترام گویا مانگنے اور دینے کا ایک فن ہوا۔ دیوتاؤں سے وہ چیز مانگنی جس کی ہمیں خواہش ہے، اور انہیں وہ چیز دے دینی جس کی انہیں احتیاج ہے۔ مختصراً یہ کہ تجارتی کاروبار کا ایک خاص ڈھنگ"۔ ایسی بے پردہ تعلیم، وقت کے داروگیر سے بچ نہیں سکتی تھی اور نہ بچی لیکن سقراط کی اولوالعزم روح وقت کی کوتاہ اندیشیوں سے مغلوب نہیں ہوسکتی تھی۔ اس نے ایک ایسے صبر و استقامت حق کے ساتھ جو صرف نبیوں اور شہیدوں ہی کے اندر گھر بنا سکتا ہے زہر کا جام اٹھایا اور بغیر کسی تلخ کامی کے پی لیا۔ تمنت سلیمی ان نموت بحبہا۔ واھون شیء عندنا ماتمنت اس نے مرنے سے پہلے آخری بات جو کہی تھی وہ یہ تھی : "وہ ایک کمزور دنیا سے ایک بہتر دنیا کی طرف جا رہا ہے"۔ افلاطون نے سقراط کے باحثانہ (Dialectic) افکار کو جو ایک معلم کے درس و املا کی نوعیت رکھتے تھے ایک مکمل ضابطہ کی شکل دے دی اور منطقی تحلیل کے ذریعہ انہیں و جوامع کی صورت میں مرتب کیا۔ اس نے اپنے فلسفیانہ بحث و نظر کی بنیاد کلیات (Abstracts) پر رکھی اور حکومت سے لے کر خدا کی ہستی تک سب کو تصوریت (Idea) کا جامہ پہنا دیا۔ اگر تصوریت محسوسات سے الگ ہستی رکھتی ہے تو ناؤس (Nause) یعنی نفس ناطقہ بھی مادہ سے الگ اپنی ہستی رکھتا ہے اور اگر نفس مادہ سے الگ ہستی رکھتا ہے تو خدا کی ہستی بھی مادیات سے الگ اپنی نمود رکھتی ہے۔ اس نے انکسا غورس کے مسلک کے خلاف دو نفسوں میں امتیاز کیا۔ ایک کو فانی قرار دیا۔ دوسرے کو لافانی۔ فانی نفس خواہشیں رکھتا ہے۔ اور وہی مجسم ایجو (Ego) ہے۔ لیکن لافانی نفس کائنات کی اصل عاقلہ ہے اور جسمانی زندگی کی تمام آلائشوں سے یک قلم منزہ یہی نفس کلی کی وہ الٰہی چنگاری ہے جس نے انسان کے اندر قوت مدرکہ کی روشنی کا چراغ روشن کردیا ہے یہاں پہنچ کر نفس کلی کا تصور بھی ایک طرح سے وحدۃ الوجودی تصور کی نوعیت پیدا کرلیتا ہے۔ در اصل ہندو فلسفے کا "آتما" اور یونانی فلسفے کا "نفس" ایک ہی مسمی کے دو نام ہیں۔ یہاں "آتما" کے بعد "پرم آتما" نمودار ہوا تھا۔ وہاں نفس کے بعد نفس کلی نمودار ہو۔ ("ناؤس" جس کا تلف "ناؤز" کیا جاتا ہے عربی کے "نفس" سے اس درجہ صوتی مشابہت رکھتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے "ناؤز" تعریب کا جامہ پہن کر "نفس" ہوگیا۔ اسی طرح "نوئٹک" (Noetic) اور "ناطق" اس درجہ قریب ہیں کہ دوسرے کو پہلے کی تعریب سمجھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ رینان اور دوزی نے نفس ناطقہ کو "نوئٹک ناؤز" کا معرب قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ "ناط" نطق سے نہیں ہے بلکہ "نوئٹک" کی تعریب ہے جس کے معنی ادراک کے ہیں۔ بعض عربی مصادر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ اصل یونانی الفاظ پیش نظر کھے گئے تھے۔ "نفس" عربی لغت میں ذات اور خود کے معنی میں بولا جاتا تھا اور ارسطو نے عاقلانہ نطق کو انسان کی فصل قرار دیا تھا۔ اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب مترجموں نے یونانی تعبیر سامنے رکھ کر نفس ناطقہ کی ترکیب اختیار کرلی اور یہ تعریب خود عربی الفاظ کے مدلول سے بھی ملتی جلتی ہوئی بن گئی) سقراط نے خدا کی ہستی کے لیے "اگاتھوس" یعنی "الخیر" کا تصور قائم کیا تھا۔ وہ سر تا سر اچھائی اور حسن ہے۔ افلاطون و جود کی دنیاؤں سے بھی اوپر اڑا اور اس نے خیر بحث کا سراغ لگانا چاہا لیکن سقراط کے صفاتی تصور پر کوئی اضافہ نہ کرسکا۔ ارسطو (Aristotle) جس نے فلسفے کو روحانی تصوروں سے خالص کر کے صرف مشاہدۂ و احساسات کے دائرہ میں دیکھنا چاہا تھا اس سقراطی تصور کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے عقل اول اور عقل فعال کا تصور قائم کیا جو ایک ابدی، غیر متجزی، اور بسیط بحث ہستی ہے۔ پس گویا سقراط اور افلاطون نے جس ذات کی صفت "الخیر" میں دیکھی تھی ارسطو نے اسے "العقل" میں دیکھا اور اس منزل پر پہنچ کر رک گیا۔ اس سے زیادہ جو کچھ مشائی فلسفے (Peripatetic) میں ہمیں ملتا ہے وہ خود ارسطو کی تصریحات نہیں ہیں۔ اس کے یونانی اور عرب شارحوں کے اضافے ہیں۔ اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ "الخیر" اور "العقل" یونانی فلسفے کے تصور الوہیت کا ماحصل ہے۔ سقراط کے صفاتی تصور کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ضروری کہ افلاطون کی جمہور (Republic) کا حسب ذیل مکالمہ پیش نظر رکھا جائے۔ اس مکالمہ میں اس نے تعلیم کے مسئلہ پر بحث کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہییں۔ "اڈمنٹس نے سوال کیا کہ شاعروں کو خدا کا ذکر کرتے ہوئے کیا پیرایہ بیان اختیار کرنا چاہیے"۔ سقراط : ہر حال میں خدا کی توصیف ایسی کرنی چاہیے جیسا کہ وہ اپنی ذات میں ہے۔ خواہ رزمی (Epic) شعر ہو خواہ غنائی (Lyric)۔ علاوہ بریں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی ذات صالح ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس کی صفات بھی صلاح پر مبنی ہوں۔ اڈمنٹس : درست ہے۔ سقراط : اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو وجود صالح ہوگا اس سے کوئی بات مضر صادر نہیں ہوسکتی اور جو ہستی غیر مضر ہوگی وہ کبھی شر کی صانع نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جو ذات صالح ہوگی ضروری ہے کہ نافع بھی ہو۔ پس معلوم ہوا کہ خدا صرف خیر کی علت ہے۔ شر کی علت نہیں ہوسکتا۔ اڈمنٹس : درست ہے۔ سقراط : اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ خدا کا تمام حوادث کی علت ہونا ممکن نہیں جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ انسانی حالات کے بہت ہی تھوڑے حصے کی علت ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ہماری برائیاں بھلائیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور برائیوں کی علت خدا کی صالح اور نافع ذات نہیں ہوسکتی۔ پس چاہیے کہ صرف اچھائی ہی کو اس کی طرف نسبت دیں اور برائی کی علت کسی دوسری جگہ ڈھونڈھیں۔ اڈمنٹس : میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ بات بالکل واضح ہے۔ سقراط : تو اب ضروری ہو کہ ہم شاعروں کے ایسے خیالات سے متفق نہ ہوں جیسے ہومر کے حسب ذیل شعروں میں ظاہر کیے گئے ہیں "مشتری کی ڈیوڑھی میں دو دو پیالے رکھے ہیں۔ ایک خیر کا ہے۔ ایک شر کا۔ اور ہی انسان کی بھلائی اور برائی کی تمام تر علت ہیں۔ جس انسان کے حصے میں خیر کے پیالے کی شراب آگئی اس کے لیے تمام تر خیر ہے۔ جس کے حصے میں شر کی آئی۔ اس کے لیے تمام تر شر ہے۔ اور پھر جس کسی کو دونوں پیالوں کا ملا جلا گھونٹ مل گیا اس کے حصے میں اچھائی بھی آگئی اور برائی بھی" پھر اس کے بعد تجسم کے عقیدہ پر بحث کی ہے اور اس سے انکار کیا ہے کہ "خدا ایک بازیگر اور بہروپیے کی طرح کبھی ایک بھیج میں نمودار ہوتا ہے کبھی دوسرے بھیس میں" (دی پبلک ترجمہ ٹیلر۔ باب 2) (جمہوریت کے اشخاص مکالمہ میں "اڈمنٹس" اور "گلوکن" افلاطون کے بھائی ہیں۔ چنانچہ افلاطون نے خود ایک جگہ اس کی تصریح کی ہے۔ افلاطون کی دوسری مصنفات کے ساتھ جمہوریت کا ترجمہ بھی عربی میں ہوگیا تھا۔ چنانچہ چھٹی صدی ہجری میں ابن رشد نے اس کی شرح لکھی شرح کے دیباچہ میں لکھتا ہے کہ میں نے ارسطو کی کتاب السیاسہ کی شرح لکھنی چاہی تھی مگر اندلس میں اس کا کوئی نسخہ نہیں ملا۔ مجبوراً افلاطون کی کتاب اختیار کرنی پڑی۔ ابن رشد کی شرح کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ میں موجود ہیں مگر اصل عربی ناپید ہے۔ یورپ کے موجود تراجم براہ راست یونانی سے ہوئے ہیں۔ ہمارے پیش نظر اے۔ ای۔ ٹیلر اور بی جو ویٹ (Jowet) کے انگریزی تراجم ہیں مشتری یعنی "زیوس" (Zeus) یونان کے اصنامی عقائد میں رب الارباب یعنی دیوتاؤں میں سب سے بڑا اور حکمراں دیوتا تھا۔ ہومر نے ایلیڈ میں دیوتاؤں کی جو مجلس آراستہ کی ہے۔ اس میں تخت نشین ہستی مشتری ہی کی ہے۔ یہ اشعار ایلیڈ کے ہیں۔ سلیمان بستانی نے اپنے بے نظیر ترجمہ عربی میں ان کا ترجمہ حسب ذیل شعروں میں کیا ہے : فباعتا رف قارورتان : ذی لخیر و ذی لشرالھوان فیہما کل قسمۃ الانسان فالذی منہما مزیجا انالا زفس یلقی خیرا ویلقی وبالا والذی لاینال الا من الشر فتنتابہ الخطوب انتیابا بطواہ یطوی البلاد کلیلا تائھا فی عرض الفلاۃ ذلیلا من بنی الخلد والوری مخذولا (الیاذہ۔ نشید 24۔ صفحہ 1131) ان اشعار میں "زفس" یونانی "زیوس" کی تعریب ہے۔) اسکندریہ کا مذہب افلاطون جدید : تیسری صدی مسیحی میں اسکندریہ کے فلسفہ تصوف نے "مذہب افلاطون جدید" (Neo-Platonic) کے نام سے ظہور کیا جس کا بانی اموینس سکاس (Ammonius Saccas)۔ اموینس کا جانشین فلاطینس (Platinus) ہوا فلاطینس کا شاگرد فور فوریوس (Porphyry) تھا جو اسکندرا فردوسی کے بعد ارسطو کا سب سے بڑا شار تسلیم کیا گیا ہے اور جس نے افلاطونیۂ جدیدہ کی مبادیات مشائی فلسفے میں مخلوط کردیں۔ فلاطینس اور فورفوریوس کی تعلیم سرتاسر اسی اصل پر مبنی تھی جو ہندوستان میں اوپانی شد کے مذہب نے اختیار کی ہے۔ یعنی عام حق کا اصلی ذریعہ کشف ہے۔ نہ کہ استدلال، اور معرفت کا کمال مرتبہ یہ ہے کہ جذب و فنا کا مقام حاصل ہوجائے۔ خدا کی ہستی کے بارے میں فلاطینس بھی اس نتیجہ پر پہنچا جس پر اوپانی شد کے مصنف اس سے بہت پہلے پہنچ چکے تھے۔ یعنی نفی صفات کا مسلک اس نے بھی اختیار کیا۔ ذات مطلق ہمارے تصور ادراک کی تمام تعبیرات سے ماورا ہے۔ اس لیے ہم اس بارے میں کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ ذات مطلق ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی نہیں جو اس سے ظہور میں آئیں۔ ہم اس کی نسبت کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ ہم نہ تو اسے موجودیت سے تعبیر کرسکتے ہیں نہ جوہر سے۔ نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ زندگی ہے۔ حقیقت ان تمام تعبیروں سے وراء الوراء ہے" (E.T.Mekenna جلد 2۔ صفحہ 134) سقراط اور افلاطون نے حقیقت کو "الخیر" سے تعبیر کیا تھا۔ اس لیے فلاطینس وہاں تک بڑھنے سے انکار نہ کرسکا لیکن اس سے آگے کی تمام راہیں بندی کردیں۔ جب تم نے کہا الخیر، تو بس یہ کہہ کر رک جاؤ اور اس پر اور کچھ نہ بڑھاؤ۔ اگر تم کسی دوسرے خیال کا اضافہ کرو گے تو ہر اضافہ کے ساتھ ایک نئے نقص کی اس سے تقریب کرتے جاؤگے۔ ارسطو نے حقیقت کا سراغ عقول مجردہ کی راہ سے لگایا تھا اور علۃ العلل کو عقل اول سے تعبیر کیا تھا مگر فلاطینس کا مطلق اس تعبیر کی گرانی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ "یہ بھی مت کہو کہ وہ عقل ہے۔ تم اس طرح اسے منقسم کرنے لگو گے"۔ لیکن اگر ہم "عقل" کا اطلاق اس پر نہیں کرسکتے تو پھر "الوجود" اور "الخیر" کیونکر کہہ سکتے ہیں؟ اگر ہم اپنی متصورہ صفتوں میں سے کوئی صفت بھی اس کے لیے نہیں بول سکتے تو پھر وجودیت اور خیریت کی صفات بھی کیوں ممنوع نہ ہوں؟ اس اعتراض کا وہ خود جواب دیتا ہے۔ ہم نے اگر اسے "الخیر" کہا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کوئی باقاعدہ تصدیق کسی خاص وصف کی کرنی چاہتے ہیں کہ وہ ایک مقصد اور منتہی ہے جس پر تمام سلسلے جا کر ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ گویا ایک اصطلاح ہوئی جو ایک خاص غرض کے لیے کام میں لائی گئی ہے۔ اسی طرح اگر ہم اس کی نسبت وجود کا حکم لگاتے ہیں تو صرف اس لیے کہ عدم کے ائرہ سے اسے باہر رکھیں۔ وہ تو ہر چیز سے ماورا ہے۔ حتی کہ وجود کے اوصاف و خواص سے بھی"۔ اسکندریہ کے کلیمنٹ (Clement) نے اس مسلک کا خلاصہ چند لٖفظوں میں کہہ دیا۔ " اس کی شناخت اس سے نہیں کی جاسکتی کہ وہ کیا ہے؟ صرف اس سے کی جاسکتی ہے کہ وہ کیا کچھ نہیں ہے" یعنی یہاں صف سلب و نفی کی راہ ملتی ہے۔ ایجاب و اثبات کی راہیں بند ہیں۔ سر لسان النطق عنہ اخرس باب صفات میں یہ وہی بات ہوئی جو اوپانی شد کی "نیتی نیت" میں ہم سن چکے ہیں اور جس پر شنکر نے اپنے مذہب کی مبادیات کی تمام عمارتیں استوار کی ہیں۔ ازمنہ وسطیٰ کے یہودی فلاسفہ نے بھی یہی مسلک اختیار کیا تھا۔ موسیٰ بن میمون (المتوفی 605 ھ) خدا کو "الموجود" کہنے سے بھی بھی انکار کرتا ہے اور کہتا ہے ہم جونہی "موجود" کا وصف بولتے ہیں ہمارے تصور پر مخلوق کے اوصاف وخواص کی پرچھائیں پڑنے لگتی ہے اور خدا ان اوصاف سے منزہ ہے۔ اس نے اس سے بھی انکار کیا کہ خدا کو وحدہ لاشریک کہا جائے۔ کیونہ اور اور عدم شرکت کے تصورات بھی اضافی نسبتوں سے خالی نہیں۔ ابن میمون کا یہ مسلک در اصل فلسفہ اسکندریہ ہی کی بازگشت تھی۔ (E.T.Mekenna جلد اول صفحہ 118۔ مذہب افلاطون جدید افللاطون کی طرف اس لیے منسوب ہوا کہ اس کی بنیاد بعض افلاطونی مبادیات پر رکھی گئی تھی۔ مگر پھر اپنی بحث و نظر میں اس نے جو راہ اختیار کی اور جن نتائج تک پہنچا انہیں افلاطون سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن عرب فلاسفہ کا ایک بڑا طبقہ اس غلط فہمی میں پڑگیا کہ فی الحقیقت یہ افلاطون ہی کا مذہب ہے۔ اس مذہب کے بعض فلسفیوں مثلافورفوریوس نے ارسطو کی شرح کرتے ہوئے اس کے مذہب میں جو اضافے کیے تھے اسے بھی عرب حکما اصل سے ممتاز نہ کرسکے۔ چنانچہ ابو نصر فارابی نے الجمع بین الرائین میں ارسطو کا جو مذہب ظاہر کیا ہے اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ ابن رشد پہلا عرب فلسفی ہے جس نے یہ غلط فہمی محسوس کی اور ارسطو کے مذہب کو شارحوں کے اضافے سے خالص کر کے دیکھنا چاہا۔ 529 ء میں جب شہنشاہ جسٹینین کے حکم سے اسکندریہ کے فلاسفہ جلا وطن کیے گئے تو ان میں سے بعض نے ایران میں پناہ لی۔ چنانچہ سیمیٹس اور ڈیماسیس خسرو کے دربار میں معزز جگہ رکھتے تھے۔ ان فلاسفہ کی وجہ سے پہلوی زبان بھی مذہب افلاطون جدید سے آشنا ہوگئی اور ایرانی حکما نے اسے قومی رنگ دینے کے لیے زردشت اور جاماسپ کی طرف منسوب کردیا۔ عربی میں جب پہلوی ادبیات منتقل ہوئیں تو یہ فلسفیانہ مقالات بھی ترجمہ ہوئے اور عام طور پر یہ خیال پیدا ہوگیا کہ یہ زردشت اور جاماسپ کا ایک پراسرار فلسفہ ہے۔ چنانچہ شیخ شہاب الدین نے حکمۃ الاشراق میں اور شیرازی نے اس کی شرح میں دونوں غلطیاں جمع کردی ہیں۔ وہ مذہب افلاطون جدید کو افلاطون کا مذہب سمجھتے ہیں اور زردشت اور جاماسپ کا بھی حوالہ دیتے ہیں !) قرآنی تصور : بہرحال چھٹی صدی مسیحی میں دنیا کی خدا پرستانہ زندگی کے تصورات اس حد تک پہنچ تھے کہ قرآن کا نزول ہوا۔ اب غور کرو کہ قرآن کے تصور الٰہی کا کیا حال ہے؟ جب ہم ان تمام تصورات کے مطالعہ کے بعد قرآن کے تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آجاتا ہے کہ تصور الٰہی کی تمام تصویروں میں اس کی تصویر جامع اور بلند تر ہے۔ اس سلسلہ میں حسب ذیل امور قابل غور ہیں : (1)۔ تزیہہ کی تکمیل : اولا : تجسم اور تنزیہہ کے لحاظ سے قرآن کا تصور تزنیہہ کی ایسی تکمیل ہے جس کی کوئی نمود اس وقت دنیا میں موجود نہیں تھی۔ قرآن سے پہلے تنزیہہ کا بڑے سے بڑا مرتبہ جس کا ذہن انسانی متحمل ہوسکا تھا یہ تھا کہ اصنام پرستی کی جگہ ایک ان دیکھے خدا کی پرستش کی جائے۔ لیکن جہاں تک صفات الٰہی کا تعلق ہے انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت اور جسم و ہیئت کے تمثل سے کوئی تصور بھی خالی نہ تھا۔ ہندوستان اور یونان کا حال ہم دیکھ چکے ہیں۔ یہودی تصور جس نے اصنام پرستی کی کوئی شکل بھی جائز نہیں رکھی تھی وہ بھی اس طرح کے تشبہ و تمثل سے یکسر آلودہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خدا کو ممرے کے بلوطوں میں دیکھنا، خدا کا حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے کشتی لڑنا، کوہ طور پر شعلوں کے اندر نمودار ہونا، حضرت موسیٰ کا خدا کو پیچھے سے دیکھنا، خدا کا جوش غضب میں آ کر کوئی کام کر بیٹھنا اور پھر پچھتانا، بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لینا اور پھر اس کی بدچلنی پر ماتم کرنا، ہیکل کی تباہی پر اس کا نوحہ، اس کی انتڑیوں میں درد کا اٹھنا اور کلیجے میں سوراخ پڑجانا، تورات کا عام اسلوب بیان ہے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن سے پہلے فکر انسانی اس درجہ بلند نہیں ہوا تھا کہ تمثیل کا پردہ ہٹا کر صفات الٰہی کا جلوہ دیکھ لیتا۔ اس لیے ہر تصور کی بنیاد تمام تر تمثیل و تشبیہ ہی پر رکھنی پڑی۔ مثلاً تورات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف زبور کے ترانوں اور یشعیا کی کتاب میں خدا کے لیے شائستہ صفات کا تخیل موجود ہے لیکن دوسری طرف خدا کا کوئی مخاطبہ ایسا نہیں جو سرتار سر انسانی اوصاف و جذبات کی تشبیہ سے مملو نہ ہو۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے جب چاہا کہ رحمت الٰہی کا عالمگیر تصور پیدا کریں تو وہ بھی مجبور ہوئے کہ خدا کے لیے باپ کی تشبیہ سے کام لیں۔ اسی تشبیہ سے ظاہر پرستوں نے ٹھوکر کھائی اور ابنیت مسیح (علیہ السلام) کا عقیدہ پیدا کرلیا۔ لیکن ان تمام تصورات کے بعد جب ہم قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اچانک فکر و تصور کی ایک بالکل نئی دنیا سامنے آگئی۔ یہاں تمثیل و تشبیہ کے تمام پردے بیک دفعہ اتھ جاتے ہیں، انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت مفقود ہوجاتی ہے، ہر گوشہ میں مجاز کی جگہ حقیقت کا جلوہ نمایاں ہوتا ہے اور تجسم کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔ تنزیہہ اس مرتبہ کمال تک پہنچ جاتی ہے کہ : "لیس کمثلہ شیء : اس کے مثل کوئی شے نہیں کسی چیز سے بھی تم اسے مشابہ نہیں ٹھہرا سکتے" (42۔11) " لا تُدْرِکُہُ الأبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ: انسان کی نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں لیکن وہ انسان کی نگاہوں کو دیکھ رہا ہے" (6۔103) "قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ (١) اللَّہُ الصَّمَدُ (٢) لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ (٣) وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ (٤): اللہ کی ذات یگانہ ہے، بے نیاز ہے اسے کسی کی احتیاج نہیں۔ نہ تو اس سے کوئی پیدا ہوا، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابری کی ہوئی" (112) تورات اور قرآن کے جو مقامات مشترک ہیں دقت نظر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرو۔ تورات میں جہاں کہیں خدا کی براہ راست نمود کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن وہاں خدا کی تجلی کا ذکر کرتا ہے۔ تورات میں جہاں یہ پاؤگے کہ خدا متشکل ہو کر اترا قرآن اس موقع کی یوں تعبیر کرے گا کہ خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر نمودار ہوا۔ بطور مثال کے صرف ایک مقام پر نظر ڈال لی جائے۔ تورات میں ہے : "خداوند نے کہا اے موسیٰ دیکھ، یہ جگہ میرے پاس ہے، تو اس چٹان پر کھڑا رہ، اور یوں ہوگا کہ جب میرے جلال کا گزر ہوگا تو میں تجھے اس چٹان کی دراڑ میں رکھوں گا، اور جب تک نہ گزر لوں گا تجھے اپنی ہتھیلی سے ڈھانپے رہوں گا۔ پھر ایسا ہوگا کہ میں ہتھیلی اٹھالوں گا اور تو میرا پیچھا دیکھ لے گا۔ لیکن تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا" (خروج 33۔20) "تب خداوند بدلی کے ستون میں ہو کر اترا اور خیمہ کے دروازے پر کھڑا رہا۔ اس نے کہا کہ میرا بندہ موسیٰ اپنے خداوند کی شبیہ دیکھے گا" (گنتی 12:5) اسی معاملہ کی تعبیر قرآن نے یوں کی ہے : "قال رب ارنی انظر الیک قال لن ترانی ولکن انظر الی الجبل : موسیٰ نے کہا اے پروردگار ! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیری طرف نگاہ کرسکوں فرمایا نہیں۔ تو کبھی مجھے نہیں دیکھے گا لیکن ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ" (7۔143) تنزیہہ اور تعطیل کا فرق البتہ یاد رہے کہ تنزیہہ اور تعطیل میں فرق ہے۔ تنزیہہ سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک عقل بشری کی پہنچ ہے صفات الٰہی کو مخلوقات کی مشابہت سے پاک اور بلند رکھا جائے۔ تعطیل کے معنی یہ ہیں تنزیہہ کے منع و نفی کو اس حد تک پہنچا دیا جائے کہ فکر انسانی کے تصور کے لیے کوئی بات باقی ہی نہ رہے۔ قرآن کا تصور تنزیہہ کی تکمیل ہے۔ تعطیل کی ابتدا نہیں ہے۔ بلاشبہ اوپانی شد تنزیہہ کی "نیتی نیتی" 1؎ کو بہت دور تک لے گئے لیکن عملاً نتیجہ کیا نکلا؟ یہی نا کہ ذات مطلق (برہماں) کو ذات مشخص (ایشور) میں اتارے بغیر کام نہ چل سکا : بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ 1 (؎۔ "نیتی" یعنی کلمۂ نفی۔ وہ ایسا بھی نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں۔ برہدریناک اوپانی شد میں یہ نفی دور تک چلی گئی ہے۔ وہ کثیف ہے؟ نہیں۔ وہ لطیف ہے؟ نہیں۔ وہ کوتاہ ہے ؟ نہیں۔ وہ دراز ہے؟ نہیں۔ غرض کی ہر مشابہت کے جواب میں "نہیں" دہرایا جاتا ہے۔ نہ وہ ایسا ہے۔ نہ ویسا ہے۔ نہ یہ ہے۔ نہ وہ ہے۔ اے بروں از وہم و قال و قیل من خاک برفرق من و تمثیل من !) جس طرح اثبات صفات میں غلو تشبہ کی طرف لے جاتا ہے اسی طرح نفی صفات میں غلو تعطیل تک پہنچا دیتا ہے اور دنوں میں تصور انسانی کے لیے ٹھوکر ہوئی اگر تشبہ اسے حقیقت سے نا آشنا کردیتا ہے تو تعطل اسے عقیدہ کی روح سے محروم کردیتا ہے۔ پس یہاں ضروری ہوا کہ افراط اور تفریط دونوں سے قدم روکے جائیں اور تشبہ اور تعطیل دونوں کے درمیان راہ نکالی جائے۔ چنانچہ قرآن نے جو راہ اختیار کی ہے وہ دونوں راہوں کے درمیان جاتی ہے اور دونوں انتہائی سمتوں کے میلان سے بچتی ہوئی نکل گئی ہے۔ اگر خدا کے تصور کے لیے صفات و افعال کی کوئی صورت ایسی باقی نہ رہے جو فکر انسانی کی پکڑ میں آسکتی ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہی نکلے گا کہ تنزیہہ کے معنی نفی وجود کے ہوجائیں گے۔ یعنی اگر کہا جائے، ہم خدا کے لیے کوئی ایجابی صفت قرار نہیں دے سکتے۔ کیونکہ جو صفت بھی قرار دینگے اس میں مخلوق کے اوصاف سے مشابہت کی جھلک آجائے گی، تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں فکر انسانی کے لیے کوئی سر رشتہ تصور باقی نہیں رہے گا اور وہ کسی ایسی ذات کا تصور ہی نہیں کرسکے گا، اور جب تصور نہیں کرسکے گا تو ایسا عقیدہ اس کے اندر کوئی پکڑ اور لگاؤ بھی پیدا نہیں کرسکے گا۔ ایسا تصور اگرچہ اثبات وجود کی کوشش کرے لیکن فی الحقیقت وہ نفی وجود کا تصور ہوگا۔ کیونکہ صرف سلبی تصور کے ذریعہ ہم ہستی کو نیستی سے جدا نہیں کرسکتے۔ خدا کی ہستی کا اعتقاد انسانی فطرت کے اندرونی تقاضوں کا جواب ہے۔ اسے حیوانی سطح سے بلند ہونے اور انسانیت اعلی کے درجہ تک پہنچنے کے لیے بلندی کے ایک نصب العین کی ضرورت ہے اور اس نصب العین کی طلب بغیر کسی ایسے تصور کے پوری نہیں ہوسکتی جو کسی نہ کسی شکل میں اس کے سامنے آئے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ مطلق کا تصور سامنے آنہیں سکتا۔ وہ جبھی آئے گا کہ ایجابی صفتوں کے تشخص کا کوئی نہ کوئی نقاب چہرے پر ڈال لے۔ چنانچہ ہمیشہ اس نقاب ہی کے ذریعہ جمال حقیقت کو دیکھنا پڑا۔ یہ کبھی بھاری ہوا کبھی ہلکا۔ کبھی پر خوف رہا کبھی دلآویز، مگر اترا کبھی نہیں : آہ ازاں حوصلہ تنگ و ازاں حسن بلند کہ دلم را گلہ از حسرت دیدار تو نیست ! جمال حقیقت بے نقاب ہے مگر ہماری نگاہوں میں یا رائے دید نہیں۔ ہم اپنی نگاہوں پر نقاب ڈال کر اسے دیکھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے چہرے پر نقاب پڑگیا : ہرچہ ہست از قامت ناساز و بے اندام ست ورنہ تشریف تو بربالائے کس دشوار نیست ! غیر صفاتی تصور کو انسان پکڑ نہیں سکتا اور طلب اسے ایسے مطلوب کی ہوئی جو اس کی پکڑ میں آسکے۔ وہ ایک ایسا جلوہ محبوبی چاہتا ہے جس کے عشق میں اس کا دل اٹک سکے، جس کے حسن گریزاں کے پیچھے وہ والہانہ دوڑ سکے، جس کا دامن کبریائی پکڑنے کے لیے ہمیشہ اپنا دست عجز و نیاز بڑھاتا رہے۔ جو اگرچہ زیادہ سے زیادہ بلندی پر ہو لیکن پھر بھی اسے ہر دم جھانکلگائے تاک رہا ہو کہ "ان ربک لبالمرصاد : یقینا تمہارا پروردگار تمہیں گھات لگائے تاک رہا ہے" اور واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان : اور جب میرا بندہ تجھ سے میری نسبت سوال کرتا ہے تو اس سے کہہ دے کہ میں اس سے دور کب ہوں؟ میں تو بالکل اس کے پاس ہوں" (2۔186)۔ درپردہ و برہمہ کس پردہ می دری باہر کسی وبا تو کسے را وصال نیست غیر صفاتی تصور محض نفی و سلب ہوتا ہے اور اس سے انسانی طلب کی پیاس نہیں بجھ سکتی۔ ایسا تصور ایک فلسفیانہ تخیل ضرور پیدا کردے گا لیکن دلوں کا زندہ اور سرگرم عقیدہ نہیں بن سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جو راہ اختیار کی وہ ایک طرف تو تنزیہہ کو اس کے کمال درجہ پر پہنچا دیتی ہے۔ دوسری طرف تعطیل سے بھی تصور کو بچا لے جاتی ہے۔ وہ فرداً فرداً تمام صفات و افعال کا اثبات کرتا ہے مگر ساتھ ہی مشابہت کی قطعی نفی بھی کرتا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے : خدا حسن و خوبی کی ان تمام صفتوں سے جو انسانی فکر میں آسکتی ہیں متصف ہے۔ وہ زندہ ہے قدرت والا ہے، پالنے والا ہے، رحمت والا ہے، دیکھنے والا، سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ انسان کی بول چال میں قدرت و اخیتار اور ارادہ و فعل کی جتنی شائستہ تعبیرات ہیں انہیں بھی بلا تامل استعمال کرتا ہے۔ مثلاً خدا کے ہاتھ تنگ نہیں "بل یداہ مبسوطتان"(5۔46)۔ اس کے تخت خکومت و کبریائی کے احاطہ سے کوئی گوشہ باہر نہیں : "وسع کرسیہ السموات والارض" (2۔255)۔ لیکن یہ بھی صاف صاف اور بے لچک لفظوں میں کہہ دیتا ہے کہ اس سے مشابہ کوئی چیز نہیں جو تمہارے تصور میں آسکتی۔ وہ عدیم المثال ہے "لیس کمثلہ شیء" (42۔11)۔ تمہاری نگاہ اسے پا ہی نہیں سکتی : "لا تدرکہ الابصار" (6۔103)۔ تم اس کے لیے اپنے تخیل سے مثالیں نہ گھڑو : "فلا تضربوا للہ الامثال" (16۔7)۔ پس ظاہر ہے کہ اس کا زندہ ہونا ہمارے زندہ ہونے کی طرح نہیں ہوسکتا۔ اس کی پروردگاری ہماری پروردگاری کی طرح نہیں ہوسکتی۔ اس کا دیکھنا، سننا، جاننا ویسا نہیں ہوسکتا جس طرح کے دیکھنے، سننے اور جاننے کا ہم تصور کرسکتے ہیں۔ اس کی قدرت و بخشش کا ہاتھ اور جلال و احاطہ کا عرش ضرور ہے لیکن یقینا اس کا مطلب وہ نہیں ہوسکتا جو ان الفاظ کے مدلولات سے ہمارے ذہن میں متشکل ہونے لگتا ہے۔ قرآن کے تصور الٰہی کا یہ پہلو فی الحقیقت اس راہ کی تمام درماندگیوں کا ایک ہی حل اور ساری عمر کی سرگردانیوں کے بعد بالاآخر اسی منزل پر پہنچ کر دم لینا پڑتا ہے۔ انسانی فکر جتنی بھی کاوشیں کرے اس کے سوا اور کوئی حل پیدا نہیں کرسکے گا۔ یہاں ایک طرف بام حقیقت کی بلندی اور فکر کوتاہ کی نارسائیاں ہوئیں۔ دوسری طرف ہماری فطرت کا اضطراب طلب اور ہمارے دل کا تقاضائے دید ہوا۔ بام اتنا بلند کہ نگاہ تصور تھک تھک کے رہ جاتی ہے۔ تقاضاے دید اتنا سخت کہ بغیر کسی کا جلوہ سامنے لائے چین نہیں پا سکتا : نہ بہ اندازہ بازوست کمندم ہیہات ورنہ باگوشہ بامیم سروکارے ہست ! ایک طرف راہ کی اتنی دشواریاں دوسری طرف طلب کی اتنی سہل اندیشیاں ! ولنعم ماقیل : ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں اگر تنزیہہ کی طرف زیادہ جھکتے ہیں تو تعطیل میں جا گرتے ہیں۔ اگر اثبات صفات کی صورت آرائیوں میں دور نکل جاتے ہیں تو تشبہ اور تجسم میں کھوئے جاتے ہیں۔ پس نجات کی راہ صرف یہی ہوئی کہ دونوں کے درمیان قدم سنبھالے رکھیں۔ اثبات کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، تنزیہہ کی باگ بھی ڈھیلی نہ پڑنے پائے۔ اثبات اس کی دلآویز صفتوں کا مرقع کھینچے گا۔ تنزیہہ تشبہ کی پرچھائیں سے بچاتی رہے گی۔ ایک کا ہاتھ حسن مطلق کو صورت صفات میں جلوہ آرا کردے گا۔ دوسرے کا ہاتھ اسے اتنی بلندی پر تھامے رہے گا کہ تشبہ کا گردوغبار اسے چھونے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ بر چہرۂ حقیقت اگر ماند پردۂ جرم نگاہ دیدۂ صورت پرست ماست ! اوپانی شد کے مصنفوں کا نفی صفات میں غلو تو معلوم ہے لیکن مسلمانوں میں جب علم کلام کے مختلف مذاہب و آرا پیدا ہوئے تو ان کی نظری کاوشیں اس میدان میں ان سے بھی آگے نکل گئیں اور صفات باری کا مسئلہ بحث و نظر کا ایک معرکۃ الآرا مسئلہ بن گیا۔ جہمیہ اور باطنیہ قطعی انکار کی طرف گئے۔ معتزلہ نے انکار نہیں لیکن ان کا رخ رہا اسی طرح امام ابوالحسن اشعری نے گو خود معتدل راہ اختیار کی تھی (جیسا کہ کتاب الابانہ سے ظاہر ہے) لیکن ان کے پیرووں کی کاوشیں تاویل صفات میں دور تک چلی گئیں اور بحث و نزاع سے غلو کا رنگ پیدا ہوگیا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی معاملہ کی گتھی نہ سلجھا سکا۔ اگر گتھی سلجھی تو اسی طریقہ سلجھی جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ امام جوینی یہ اقرار کرتے ہوئے دنیا سے گئے کہ "وھا انا ذا اموت علی عقیدۃ امی : میری ماں نے جو عقیدہ سکھلایا تھا اس پر دنیا سے جا رہا ہوں"۔ اشاعرہ میں امام فخر الدین رازی سب سے زیادہ ان کاوشوں میں سرگرم رہے ہیں لیکن بالآخر اپنی زندگی کی آخری تصنیف میں انہیں بھی اقرار کرنا پڑا تھا کہ "لقد تاملت الطرق الکلامیۃ والمناھج الفلسفیۃ، فما رایتھا تشفی علیلا ولا تروی غلیلا ورایت اقرب الطرق طریق القران اقرا فی الاثبات "الرحمن علی العرش استوی" وفی النفی "لیس کمثلہ شیء" ومن جرب مثل تجربتی عرف مثل معرفتی" (نقلہ ملا علی القاری فی شرح الفقہ الاکبر) "میں نے علم کلام اور فلسفہ کے تمام طریقوں کو خوب دیکھا بھالا لیکن بالآخر معلوم ہوا کہ نہ تو ان میں کسی بیماری دل کے لیے شفا ہے نہ کسی پیاسے کے لیے سیرابی۔ سب سے بہتر اور حقیقت سے نزدیک تر راہ وہی ہے جو قرآن کی راہ ہے۔ اثبات صفات میں پڑھو "الرحمن علی العرش استوی" اور نفی تشبہ میں پڑھو " لیس کمثلہ شیء" یعنی اثبات اور نفی دونوں کا دامن تھامے رہو۔ اور جس کسی کو میری طرح اس معاملہ کے تجربے کا موقع ملا ہوگا اسے میری طرح یہ حقیقت معلوم ہوگئی ہوگی" یہی وجہ ہے کہ اصحاب حدیث اور سلفیہ نے اس باب میں تفویض کا مسلک اختیار کیا تھا اور تاویل صفات میں کاوشیں کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور اسی بنا پر انہوں نے جہمیہ کے انکار صفات کو تعطیل سے تعبیر کیا اور معتزلہ و اشاعرہ کی تاویلوں میں بھی تعطل کی بو سونگھنے لگے۔ متکلمین نے ان پر تجسم اور تشبہ کا الزام لگایا لیکن وہ کہتے تھے کہ تمہارے سلب و نفی کی کاوشوں کے بعد تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ متاخرین اصحاب حدیث میں امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم نے اس مسئلہ کی گہرائیوں کو خوب سمجھا اور اسی لیے سلف کے مسلک سے ادھر ادھر ہونا گوارا نہیں کیا۔ آریائی اور سامی نقطۂ خیال کا اختلاف : آریائی اور سامی تعلیموں کے نقطہ خیال کا اختلاف ہم اس معاملہ میں پوری طرح دیکھ سکتے ہیں۔ آریائی حکمت نے فطرت انسانی کی جس صورت پرستی کے تقاضے کا جواب مورتی پوجا کا دروازہ کھول کردیا قرآن نے اسے صرف صفات کی صورت آرائی سے پورا کردیا اور پھر اس سے نیچے اترنے کی تمام راہیں بند کردیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان تمام مفاسد کے کھلنے کے دروازے بند ہوگئے جو بت پرستی کی غیر عقلی زندگی سے پیدا ہوسکتے تھے اور ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ محکمات اور متشابہات : قرآن نے اپنے مطالب کی دوبنیادی قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک کو "محکمات" سے تعبیر کیا ہے دوسرسی کو " متشابہات" سے۔ "محکمات" سے وہ باتیں مقصود ہیں جو صاف صاف انسان کی سمجھ میں آجاتی ہیں اور اس کی عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اور اس لیے ایک سے زیادہ معانی کا ان میں احتمال نہیں۔ "متشابہات " وہ ہیں جن کی حقیقت وہ پا نہیں سکتا اور اس کے سوا چارہ نہیں کہ ایک خاص حد تک جا کر رک جائے اور بے نتیجہ باریک بینیاں نہ کرے : " ہُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِہِ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَہُ إِلا اللَّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلا أُولُو الألْبَابِ (٧)" (بقرہ)۔ صفات الٰہی کی حقیقت متشابہات میں داخل ہے۔ اس لیے قرآن کہتا ہے کہ اس باب میں فکری کاوشیں کچھ سود مند نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ طرح طرح کی کج اندیشیوں کا دروازہ کھول دیتی ہیں۔ یہاں بجز تفویض 1؎ کے چارہ کار نہیں پس وہ تمام فلسفیانہ کاوشیں جو ہمارے متکلموں نے کی ہیں فی الحقیقت قرآن کے معیار تعلیم کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔ 1؎۔ تفویض کے مسلک سے مقصود یہ ہے کہ جو حقائق ہمارے دائرہ علم و ادراک سے باہر ہیں ان میں رد و کد اور باریک بینی نہ کرنا اور اپنے عجز و نارسائی کا اعتراف کرلینا تفویض کہلاتا ہے۔ اپانی شد کا مرتبہ اطلاق اور مرتبہ تشخص : اس موقعے پر یہ بات بھی صاف ہوجانی چاہیے کہ ویدانت سوتر اور اس کے سب سے بڑے شارح شنکر اچاریا نے نفی صفات پر جتنا زور یا ہے وہ حقیقت کے اس مرتبہ اطلاق سے تعلق رکھتا ہے جسے وہ "برہماں" سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی ذات مطلق سے۔ لیکن سے انہیں بھی انکار نہیں کہ مرتبہ اطلاق کے نیچے ایک اور مرتبہ بھی ہے جہاں تمام صفات ایجابی کی نقش آرائی ظہور میں آجاتی ہے اور انسان کے تمام عابدانہ تصورات کا معبود وہی ذات متصف ہوتی ہے۔ اوپانی شد کے نزدیک ذات مطلق " نیرو پادھیک ست" اور "نرگن" ہے۔ یعنی تمام مظاہرات سے منزہ اور عدیم التوصیف ہے۔ اگر کوئی ایجابی صفت اس کی نسبت سے کہی بھی جاسکتی ہے تو وہ اسی سلب کا ایجاب ہے۔ یعنی وہ "نرگنوگنی" ہے۔ عدیم الوصفی صفت سے متصف۔ ہم اس کی نسبت کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ ہم جو کچھ کہیں گے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ لامحدود کو محدود بنا دیں گے۔ اگر محدود لا محدود کا تصور کرسکتا ہے تو پھر یا تو محدود کو لامحدود ماننا پڑے گا۔ یا لا محدود کو محدود بن جانا پڑے گا" (شنکر ابھاشیا برہم سوتر۔ باب 3)۔ "ہم کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو الفاظ بولتے ہیں وہ یا تو اس چیز کا تعلق کسی خاص نوع سے ظاہر کرتے ہیں یا اس کے فعلی خواص بتلاتے ہیں یا اس کی قسم کی خبر دیتے ہیں یا کسی اور اضافی نوعیت کی وضاحت کرتے ہیں۔ لیکن برہمن کے لیے کوئی نوع نہیں ٹھہرائی جاسکتی۔ اس کی کوئی قسم نہیں۔ اس کے فعلی خواص بتلائے نہیں جاسکتے۔ اس کے لیے کوئی اضافت نہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایسا ہے۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس طرح کا نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لیے کوئی مشابہت نہیں اور چونکہ مشابہت نہیں اس لیے اس کی عدم مشابہت اور غیریت بھی انسانی تصور میں نہیں لائی جاسکتی۔ مشابہت کی طرح ہماری نفی مشابہت بھی اضافی رشتے رکھتی ہے" (ایضاً باب اول و ثانی) غرض کہ حقیقت اپنے مرتبہ اطلاق میں ناممکن التعریف ہے اور منطقی ماورائیت سے بھی ماورا ہے۔ اسی لیے ویدانت سوتر نے بنیادی طور پر ہستی کے دو دائرے ٹھہرا دیے۔ ایک کو ممکن التصور کہا ہے، دوسرے کو ناممکن التصور، ممکن التصور دائرہ پر کرتی، عناصر، ذہن، تعقل اور خودی کا ہے۔ ناممکن التصور دائرہ برہمن (ذات مطلق) کا۔ یہی مذہب اسکندریہ کے افلاطونیہ جدیدہ کا بھی تھا اور حکما اسلام اور صوفیہ نے بھی یہی مسلک اختیار کیا۔ صوفیہ مرتبہ اطلاق کو مرتبہ "احدیت" سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں "احدیت" ناممکن التصور، ناممکن التعبیر اور تمام منطقی ماورائیوں سے بھی وراء الورا ہے : بنام آں کہ آں نامے نہ دارد بہ ہر نامے کہ خوانی سر بر آرد ! لیکن پھر مرتبہ اطلاق ایک ایسے مرتبہ میں نزول کرتا ہے جس میں تمام ایجابی صفات کی صورت آرائی کا تشخص نمودار ہوجاتا ہے۔ اوپانی شد نے اسے "ایشور" سے اور صوفیہ نے "واحدیت" سے تعبیر کیا ہے۔ ویدانت سوتر کے شارحوں میں شنکر نے سب سے زیادہ اوپانی شد کے نفی صفات کے مسلک کو قائم رکھنا چاہا ہے۔ اور اس باب میں بڑی کاوش کی۔ تاہم اسے بھی "سگن برہمن" یعنی ذات مشخص و متصف کے مرتبہ کا اعتراف کرنا پڑا اور گو اس مرتبہ کے عرفان کو وہ "اپرم" یعنی فروتر مرتبہ کا عرفان قرار دیتا ہے مگر ساتھ ہی تسلیم کرتا ہے کہ ایک معبود ہستی کا تصوربغیر اس کے ممکن نہیں۔ اور انسانی ذہن و ادراک کے لیے زیادہ سے زیادہ بلند پروزی جو یہاں ہوسکتی ہے، وہ یہی ہے۔ (شنکر بھاشیا۔1۔2۔ اور شند دگیا اوپانی شد قسم 8) (بقیہ تفسیر ملاحظہ ہو اگلی آیت میں)