وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے روبرو بات کرے اس کی بات یا تو وحی کے ذریعے ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اللہ کے حکم سے جو کچھ ” اللہ“ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بلند وبالا اور حکیم ہے۔
(١٣) کفار مکہ کو دوباتوں پر سب سے زیادہ تعجب تھا اور ان کو ماننے کے لیے وہ کسی صورت تیار نہ تھے یعنی کسی بشر کارسول ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہوجانا اور محاسبہ کے لیے اللہ کے سامنے پیش ہونا توحید کے ساتھ یہ دوچیزیں تھیں جن کی طرف مکی سورتوں میں دعوت دی گئی یہاں آیت ٥١ میں بشر کی طرف وحی کی مختلف صورتیں بیان کی گئیں ہیں۔ (الف) وحی بمعنی القاء اور الہام، دل میں کوئی بات ڈال دینا یا خواب میں کچھ دکھادینا، جیسے حضرت ابراہیم کا خواب تھا حدیث میں ہے، رویا الانبیاء وحی۔ کہ انبیاء کا خواب بھی ایک قسم کی وحی ہوتی ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی (ب) من وراء حجاب۔ یعنی بندہ آواز توسنے لیکن کچھ دکھائی نہ دے جیسے حضرت موسیٰ کے ساتھ ہوا کوہ طور کے دامن میں ایک درخت سے آواز آئی مگر حضرت موسیٰ کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ (ج) اویرسل رسولا۔ یہ وحی کی وہ صورت ہے جوانبیاء کے ساتھ مخصوص ہے اور جس کے ذریعہ سے تمام آسمانی کتابیں انبیاء تک پہنچتی ہیں اور فرشتہ کبھی غیر مرئی شکل میں آتا ہے اور کبھی انسانی شکل میں آتا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل دحیہ کلبی کی شکل میں آتے تھے بہرحال آیت میں وحی کی تمام صورتوں کا بالاستیعاب ذکر نہیں۔ واللہ اعلم۔ (د) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مذکور ہر سہ طریق سے وحی آتی رہی اس لیے آیت ٥٢ میں، کذالک، سے مذکورہ تینوں طریق مراد ہیں۔ ١۔ بخاری، باب بدالوحی، میں حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پروحی آنے کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی تھی اور احادیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت خواب مذکور ہیں اور قرآن مجید میں ھی آپ کے ایک خواب کا ذکر ہے (سورۃ الفتح ٢٧) مگر کوئی ایسی تصریح نظر سے نہیں گزری کہ ابتدائے وحی میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے فلاں خواب دیکھا تھا۔ ٢۔ معراج کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف حاصل ہوا صحیح احادیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باربارعرض معروض کرنے سے آخر کار پانچ نمازوں کا حکم ہوا اور اللہ جل شانہ نے فرمایا (لایبدل القول لدی، یعنی اب اس میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہ تمام مکالمہ، من وراء حجاب، ہی تھا۔ ٣۔ فرشتے کے وحی لے کرآنے کی مختلف صورتیں تھیں فرشتہ کبھی انسانی شکل میں رونما ہوجاتا تھا اور کبھی اپنی اصلی شکل میں آپ کے سامنے آتا۔ حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ حضرت جبرائیل کو ان کی اصل شکل میں دیکھا ہے کہ ان کے چھ سو بازو ہیں۔ قرآن مجید نے بتایا کہ نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے آپ نہ تو کسی آسمانی کتاب سے آگاہ تھے اور نہ ایمان واسلام کی تفصیلات کبھی آپ کے ذہن میں آئی تھیں اور یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جن کی تردید اہل مکہ بھی نہیں کرسکتے تھے اور یہی عدم علم آپ کی صداقت پر دلیل تھا جسے قرآن مجید نے مختلف اسالیب سے، متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ تفصیلات کی قید ہم نے اس لیے لگائی ہے کہ وحی سے قبل انبیاء توحید اور نفس ایمان کے ساتھ متصف ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اہل علم نے تصریح کی ہے اور انبیاء کی سیرت کا مطالعہ اس امر کی شہات کے لیے کافی ہے۔