وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اپنے آپس کے معاملات میں مشورے سے چلتے ہیں ہم نے انہیں جو کچھ بھی رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
(١١) آیت ٣٨ میں اہل ایمان کی بہتری صفات میں سے، وامرھم شوری بینھم، فرمایا ہے اور سورۃ آل عمران ١٥٩ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احکام منصوصہ کے سوا ہر قسم کے مصالح ملکی کے بارے میں صحابہ سے مشورہ کرتے اور ان کے مشورے قبول فرمایا کرتے تھے اور بعد میں خلافت راشدہ کی بنیاد ہی، شوری پر رکھی گئی اور حضرت ابوبکر کا انتخاب بھی اسی اصل کے تحت ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی نظام اجتماعی اسلامی طرزحیاتکاستون اور امتیازی خصوصیت ہے۔ موجودہ جمہوریت اور سلامی شورائی نظام میں بنیادی اور اہم فرق یہ ہے کہ جدید جمہوریت میں نمایدگان جمہوری قانون سازی کے وسعی اختیار رکھتے ہیں لیکن اسلام میں کتاب وسنت کے نصوص کی موجودگی میں خلیفہ کو مشاورت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جب کسی امر کے متعلق کتاب وسنت کا فیصلہ نہ ملتا ہو تو پھر پیش آمد اجتماعی امور میں، مجلس مشاوت مجاز ہے کوئی فیصلہ کرے تاہم اس شوری کی بنیاد کن امور پر ہونی چاہیے یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے۔