سورة يس - آیت 36

سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اقسام کے جوڑے پیدا کیے۔ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا انسانوں میں سے یا ان چیزوں میں سے جن کو یہ نہیں جانتے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٨) قرآن مجید نے ہر مقام پر توحید وآخرت کے اثبات میں ان حقائق کو پیش کیا ہے جوشب روز ان کے مشاہدہ میں آتے ہیں مثلا مردہ زمین سے نباتات کا ظہور، رات دن کا اختلاف اور اس میں نظام شمسی کی کارفرمائی جونہاتی احکام اور باقاعدگی سے اپنا کرم کررہا ہے، پھر یہ نظام شمسی اپنی عظمت اور حیرت انگیزی کے باوجود ایک بہت بڑی کہکشاں کا ایک حصہ ہے اور جس کہکشاں میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریبا تین ہزار ملین آفتاب پائے جاتے ہیں یہ سارا کائناتی نظام کسی عزیز وحکیم کی قدرت وعلم کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا اور یہ تمام نظام ربوبیت جس طرح اللہ تعالیٰ کی ہستی پر زبردست دلیل ہے اسی طرح توحید وآخرت پر بھی بہت بڑی دلیل ہے اسی لیے قرآن حکیم نے ان حقائق کی طرف، آیت محکم، فرماکر انسان کو متوجہ کیا ہے۔ آیت نمبر ٣٦:” کائنات میں وہ قانون بھی کارفرما ہے جسے قرآن مجید نے قانون وتزویج سے تعبیر کیا ہے ہم اسے قانون تثنیہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ہر چیز کے دو دو ہونے یا متقابل یا متماثل ہونے کا قانون، کائنات خلقت کا کوئی گوشہ بھی دیکھو تمہیں کوئی چیز یہاں اکہری اور طاق نظر نہیں آئے گی۔ ہر چیز میں جفت اور دو دو ہونے کی حقیقت کام کررہی ہے، رات کے لیے دن ہے صبح کے لیے شام ہے نر کے لیے مادہ ہے مرد کے لیے عورت ہے زندگی کے لیے موت ہے۔ نظام کائنات اس قدر محکم بنایا ہے کہ تمہارے سیارے اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں اسے مولانا آزاد حقیقت اسلامی سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں : ” حقیقت اسلامی کی اطاعت وانقیاد نے ہر مخلوق کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں محدود کردیا ہے اور ہر وجود سرجھکائے ہوئے اپنا اپنا فرض انجام دینے میں مشغول ہے، تمام ستاروں کا باہمی جذب محیط ہمیشہ اس تسویہ ومیزان کے ساتھ قائم ہے کہ عظیم الشان قوتوں کے پہاڑ آپس میں نہیں ٹکراتے۔ ان کی حرکت وسیر کی مقدار اوقات مقررہ میں طلوع وغروب ایک ایسا غیر ممکن التبدیل قانون ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی“۔