إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے رہنے والوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا ان میں سے ایک گروہ کو ذلیل کرتا تھا اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ حقیقت یہ کہ وہ فساد کرنے والوں میں تھا۔“ (٤)
(٢) حضرت یوسف کی وفات کے تقریبا ایک ہزار سال بعد مصر میں ایک قوم پرستانہ انقلاب آیا اور قبطیوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اس نئی حکومت نے بنی اسرائیل کو کمزور کرنے کی کوشش کی، صرف انہیں ذلیل وخوار کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان کی تعداد کم کرنے کے لیے لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑنے کی پالیسی اختیار کی، تاکہ تدریجا ان کی عورتیں قبطیوں کے قبضے میں آتی جائیں اور ان سے قبطی نسل پیدا ہو قرآن نے یہاں فرعونیوں کی اسی پالیسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت کا آغاز : حضرت موسیٰ (علیہ السلام)، حضرت یعقوب کے بیٹے لادی کی اولاد سے تھے جب پیدا ہوئے تو ماں کو حکم ہوا کہ اسے دودھ پلاتی جا اور جب خطرہ محسوس ہوتوبچہ کو ایک تابوت میں رکھ کردیا میں ڈال دو چنانچہ ارشا باری تعالیٰ کے مطابق ماں نے انہیں دریا میں بہادیا اس طرح حضرت موسیٰ شاہی محلات میں پہنچ گئے اور ان کی پرورش کا سامان ہوگیا۔ ذکر سلطنت فرعون کا ہے لیکن غور کرو کہ آیہ کریمہ کے اندر قرآن کریم نے کس طرح ایک قانون الٰہی کو خبر دے دی، وہ بتلاتا ہے کہ قوت کے جاہ وجلال کی نمائش گاہ اور کمزوریوں کی ہلاکت مقتل ہے طاقت ور قومیں کمزوروں کو اپنا غلام اور محوکم بناتی ہیں ان میں پھوٹ ڈالتی ہیں مختلف قوموں اور گروہوں کو باہم ملنے نہیں دیتیں کیونکہ اگر وہ مل کر ایک ہوجائیں تو کمزور نہ رہیں اور اتفاق ویگانگت کی طاقت ناموں کا تختہ الٹ دے۔ ” جابر قوموں کی قوت فنا ہوتی ہے توایک عادلانہ نظام قائم ہوجاتا ہے فرعون کی جابرانہ سلطنت کا زوال ایک دوسری قوم کی عادلانہ حکومت کا مقدمہ تھا اس لیے خدا نے فرعونیوں کی ہلاکت کے ساتھ عدل الٰہی کے قیام کامژدہ بھی سنادیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ کو فرعون کا تاج وتخت الٹنے اور بنی اسرائیل کی حکومت قائم کرنے کے لیے ایک تیغ برہنہ کی صورت میں نمایا کرنا چاہتا تھا اس لیے دیکھو کس طرح بچپن ہی سے انہیں میدان جنگ کے شدائد مصائب برداشت کرنے کا خوگر بنادیا، ابھی انہوں نے دنیا میں پہلا ہی قدم رکھا تھا کہ ماں کی آغوش محبت سے جدا ہوگئے۔ حضرت موسیٰ کی والدہ نے لخت جگر کو دریا کی لہروں میں ڈال دیا لہریں اس امانت مقدس کو اس کے محتل تک بہ حفاظٹ لے گئیں جس کے سرغرور کو کچلنے کے لیے ایک دن یہ شیر خوار بچہ اٹھنے والا تھا، اس میں اللہ تعالیٰ کی بڑی مصلحت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش شاہی محل میں ہوگی تو بادشاہوں کے جاہ وجلال باطل کارعب ان کے دل سے نکل جائے گا۔ جب ان کی ذہنی نشوونما مکمل ہوگئی تو ہم نے اسے علم وحکمت سے نوازا اس طرح حضرت موسیٰ امن واطمینان کے ساتھ رہ رہے تھے کہ قبطی کے قتل کا واقعہ پیش آگیا اور پھر ایک شخص کی اطلاع پر مصر سے نکلے اور مدین چلے گئے یہ مدین شہر خلیج عقبہ کے غربی ساحل پر مقنا سے چند میل بجانب شمال واقع تھا آج کل اسے، البدع، کہتے ہیں اور وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ آباد ہے جو مدین کی جگہ پر واقع ہے۔ حضرت موسیٰ نے مدین پہنچ کر جن لڑکیوں کے مال مویشیوں کو پانی پلایا تھا عام طور پر مشہور یہ تھا کہ ان کے والد حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے لیکن قرآن میں اس پر صراحت کے ساتھ تو کجا، کوئی قرینہ بھی نہیں ہے ہاں بعض روایات میں حضرت شعیب کا نام مذکور ہے تاہم حافظ ابن کثیر نے ان کو ضعیف الاسناد قرار دیا ہے لہذا ہم اس کی تعین نہیں کرسکتے۔ بائبل میں اس بزرگ (شیخ کبیر) کے ایک دونام مذکور ہیں، یعنی، رعوایل، یاحوباب، اس کالقب یتھرو تھا جو بڑے درباری یا بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، بہرحال حضرت موسیٰ اس بزرگ کے داماد بن کر مدین میں رہنے لگے اور آٹھ دس سال اپنے خسر کا گلہ چراتے رہے اور اس کے بعد وہاں سے واپس آئے۔