وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ
” اور انہیں ابراہیم کے حالات سناؤ۔ (٦٩)
(٥) اس کے بعد حضرت ابراہیم کی زندگی کا ابتدائی واقعہ بیان کیا ہے جوان کے وطن، اُور، میں پیش آیا جہاں سے ہجرت کرکے وہ کنعان آئے اور وہیں بقیہ عمرے کے لیے بس گئے۔ حضرت ابراہیم کی ہر بات اسلام تھی حقیقت اسلامی میں ان کا وجود اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ خود ان کی کوئی ہستی باقی نہیں رہی تھی انہوں نے جب آنکھ کھولی تو ان کے چاروں طرف بت پرستی کے مناظر تھے انہوں نے خود اپنے گھرکے اندر جس کو دیکھا اسکے ہاتھ میں سنگتراشی کے اوزار اور بتوں کے ڈھانچے تھے، وہ کالڈیا کے بازاروں میں پھرے، جس طرف دیکھا بتوں کے آگے سر جھکے ہوئے تھے، جس طرف کان لگایا، خدا فراموشی کی صدائیں آرہی تھیں، پھر وہ کون سی چیز تھی جس نے تمام ان چیزوں سے ہٹا کر جو آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی جاتی ہیں ان کے دل میں ایک ان دیکھے محبوب کے عشق کی لگن لگادی، ان کے سامنے توبتوں کی قطاریں تھیں جنہیں ان کی آنکھیں دیکھتی تھیں پھر وہ کون تھا جوان کے اندر بیٹھا ہوا خدائے قدوس کو دیکھ رہا تھا اور اس قدرتی جوش وقوت کے ساتھ جو کسی بلندی سے گرنے والے آبشار یا زمین سے ابلتے ہوئے چشمے میں ہوتا ہے ؟ دراصل یہ وہی حقیقت اسلامیہ تھی جس نے ان کے وجود کو آنے والی امتوں کے لیے اسوہ حسنہ بنادیا، صالحین کو ابدی شہرت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے اور بقا ودوام، استمرار اصلاح کے لازمی خواص ہیں۔ (الف) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اس سوال سے مقصد ان کو ان بتوں کی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا تھا کہ جب یہ تمہارے معبود کسی قسم کے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں تو ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ ان کی طرف سے وہی جواب دیا گیا جو ہر بت پرست قوم نے اپنے رسول کو دیا کہ ہمارے باپ دادا کے وقتوں سے یونہی چلاآتا ہے گویا وہ اعتراف کررہے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید کررہے ہیں ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ لکڑی اور پتھر کی مورتیاں لیں لیکن ہمارے آباء واجداد بیوقوف تھے؟ حضرت ابراہیم نے فرمایا اچھا تم اور تمہارے آباء واجداد ان کی پوجا کرتے رہو، میں تو رب العالمین کے سوان سب کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں مطلب یہ تھا کہ صرف ایک رب العالمین ہی وہ ذات ہے جو عبادت کی مستحق ہے اور پھر وہ وجوہ بیان کیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے۔ (ب) اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دعا کرتے ہیں اور پھر آخر میں اپنے مشرک باپ کے لیے بھی دعائے مغفرت کرتے ہیں تو اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مشرک کے لیے دعائے مغفرت کرنا جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مشرک کے لیے دعائے مغفرت قطعا جائز نہیں ہے اور قرآن نے حضرت ابراہیم کی اس دعا کی وجہ سورۃ توبہ میں بیان کی ہے کہ حضڑت ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنامحض وعدہ کی بنا پر تھا مگر جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بے زاری کا اظہار کردیا، حضرت ابراہیم کے قصہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ الانبیاء، ترجمان القرآن جلد دوم۔ آیت ٨٩ کے تحت مولانا آزاد لکھتے ہیں : یہی وہ انسان کی فطرت اصلی ہے جسے قرآن کریم نے اسلام کے سوا قلب سلیم سے یاد کیا ہے، فی الحقیقت اسوہ ابراہیمی میں سے پہلا اسوہ یہی قلب سلیم یا ذوق فطرت کی صحت ہے، مولانا روم کی اس نکتے پر نظر تھی انہوں نے مثنوی کے کئی موقعوں میں اس پر نہایت لطیف بحث کی ہے۔ آیت ١٠٣ کے تحت لکھتے ہیں : (انقلاب حالت کے تمام مظاہر) فی الحقیقت انہیں قوانین الہیہ اور نوامیس فطریہ کے ماتحت ہیں جنہیں فاطر السماوات والارض نے اس عالم کے نظام وقوام کے لیے روز ازل ہی سے مقرر کردیا ہے پھر جن افراد واقوام ان قوانین کے مطابق راہ امید اختیار کی ان کے لیے امید کی زندگی ہے اور جنہوں نے اس سے روگردانی کی ان کے لیے نامرادی وناکامی کی مایوسی ہے، قانون جرم کی سزا دیتا ہے یہ مجرم کو جرم کرنے کے لیے مجبور نہیں کرتا، پس شکایت کارساز قدرت کی نہیں، بلکہ خود اپنی ہونی چاہیے، خدا نے امیدکادروازہ کسی پر بند نہیں کیا اور زمین کی وراثت کسی ایک قوم کو ورثہ میں نہیں دے دی، اس نے پھول اور کانٹے دونوں پیدا کیے۔ اگر ایک بدبخت کانٹوں پر چلتا ہے، مگر پھول دامن میں جمع نہیں کرتا تو اسے اپنی محرومی پر رونا چاہیے، باغباں کا کیا قصور؟۔