سورة الشعراء - آیت 11

قَوْمَ فِرْعَوْنَ ۚ أَلَا يَتَّقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

فرعون کی قوم تقویٰ اختیار نہیں کرتی (١١)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٤) مختصر تمہید کے بعد اب گذشتہ اقوام کے وقائع کو تاریخی شواہد کے طور پر پیش کیا کہ جن قوموں نے بھی اپنے پیغمبروں کی مخالفت کی وہ تباہی سے دوچار ہوگئیں۔ (الف) دس سال مدینہ میں رہنے کے بعد حضرت موسیٰ اپنے اہل کے ساتھ واپس آرہے تھے جب سینا کے قرب وجوار میں پہنچے تو دور سے آگ دکھائی دی اپنے اہل کو وہیں ٹھہرا کرآگ کے پاس پہنچے تو یہ واقعہ پیش آیا، تورات میں اسی جگہ کو، حورب، کہا ہے جو سینا کا مشرقی گوشہ ہے۔ (ب) مصری مختلف دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے، بڑا دیوتا سورج تھا جسے، رع، کہتے تھے اور چونکہ بادشاہ کو اس کا اوتار سمجھتے تھے اس لیے اس کالقب فارع تھا، یہی فارع عبرانی میں فاراعونی اور عربی میں فرعون بن گیا۔ (ج) حضرت موسیٰ یہ پیغام سن کر اپنی کمزوریوں کا اظہار کرنے لگے اور اپنے بھائی ہارون کو ساتھ لے جانے کے لیے ان کے لیے بھی رسالت کی درخواست کی، جیسا کہ سورۃ طہ میں ہے کہ میرے گھروالوں میں سے ہارون کو میرا وزیر بنادیجیے چنانچہ حضرت موسیٰ مصر کوروانہ ہوئے ادھر حضرت ہارون کو اشارہ غیبی ہوا کہ موسیٰ علیہما السلام کی تلاش میں نکلیں، چنانچہ راہ میں دونوں کی ملاقات ہوئی اسی لیے آیت ١٦ میں دونوں کو مخاطب کرکے فاتیاتثنیہ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ (د) حضڑت موسیٰ اور ہارون کو دوہرے مشن پر بھیجا گیا، فرعون کو دعوت توحید اور بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نکالنا، قرآن نے کسی جگہ پر پہلے مشن کا ذکر کیا ہے اور کسی جگہ دوسرے کا، جیسے یہاں پر آیت ١٨ میں اشارہ ملتا ہے کہ جس فرعون کی طرف حضرت موسیٰ جارہے ہیں یہ وہ نہیں ہے جس کے محل میں ان کی پرورش ہوئی تھی بلکہ اس کا بیٹا ہے جو تخت نشین ہوچکا تھا۔ (ہ) فرعون نے حضرت موسیٰ کو ناسپاس ہونے کا طعنہ دیا اور واقعہ قتل کی طرف بھی اشارہ کیا، مگر حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ وہ قتل نادانستہ ہوگیا تھا اس لیے قابل مواخذہ نہیں، اب رہا تمہارے محل میں پرورش پانا تو یہ تیرے ظلم کی وجہ سے تھا کہ تو نے بنی اسرائیل پر ظلم ڈھارکھے تھے اور تیرے ظلم کی وجہ سے میری ماں نے مجھے تابوت میں ڈال کر دریا میں بہادیا تھا۔ (و) پھر جب حضرت موسیٰ نے رب العالمین کی طرف دعوت دی تو فرعون بوکھلا گیا اور کہنے لگا کہ تمہارا یہ پیغمبر تو پاگل ہے اس پر جب حضرت موسیٰ نے اللہ کی ربوبیت عامہ کی مزید تشریح کی تو فرعون نے دھمکی دی کہ مصر میں تو اگر تو نے میرے سوا کسی اور کے الہ و معبود ہونے کا نام لیا تو جیل میں ڈال دیے جاؤ گے۔ (ز) اس کے جواب میں حضرت موسیٰ نے حق کی نشانیاں دکھلائیں مگر فرعون نے حضرت موسیٰ پر ماہر جادوگر ہونے کا الزام لگایا اور اپنے درباریوں سے کہنے لگا کہ یہ شخص بغاوت کرکے سلطنت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے اور اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے اس پر درباریوں نے مشورہ دیا کہ کیونہ ملک کے ماہر جادوگر اس کے مقابلہ کے لیے جمع کیے جائیں چنانچہ جادوگروں کو جمع کیا گیا، یہاں پر (میقات یوم معلوم) فرمایا ہے کہ ایک معین دن کے خاص وقت پر جمع کیے گئے، سورۃ طہ میں ہے کہ وہ قومی تہوار (عید کا دن) تھا۔ (ح) مصر کے جادوگروں کا اجتماع اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ۔ سورۃ اعراف میں جادوگروں کی نسبت فرمایا، انہوں نے لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دی تھیں، مطلب یہ کہ جادو کے شعبدوں کی کوئی حقیقت نہیں، محض نگاہ کا دھوکا تھا، چنانچہ سورۃ طہ ٦٦ میں اسے تخیل کی تاثیر سے بھی تعبیر فرمایا ہے اور یہاں (مایافکون) فرمایا یعنی اس کی نمائش جھوٹی تھی۔ (ط) جادو کا اعتقاد دنیا کی قدیم اور عالمگیر گمراہیوں میں سے ہے اور نوع انسانی کے لیے بڑی مصیبتوں کا باعث بن چکا ہے جس حد تک اس کی جزوی تاثیرات کا تعلق ہے وہ تو احادیث سے بھی ثابت ہے لیکن جادو کے ذریعہ سے اشیاء کی ماہیت کو تبدیل کرنا، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے چنانچہ حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں جادوگربری طرح ہار گئے اور اللہ رب العالمین پر ایمان لے آئے۔ (ی) جب فرعون نے دیکھا کہ تمام باشندگان ملک کے سامنے اسے شکست ہوئی اور جن جادوگروں پر بھروسہ کیا تھا وہ ایمان لے آئے ہیں تو ڈرا کہیں ایسا نہ ہولوگ حضرت موسیٰ کے معتقد ہوجائیں، اس نے جادوگروں پر مکروسازش کا الزام لگایا اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمہارا سردار ہے اور تم جادو میں اس کے شاگرد ہو اس لیے اس کے آگے گر پڑے، اس سے فرعون کایہ مقصد تھا کہ عوام پر حقیقت حال مشتبہ کردے اور شکست کی ذلت کوچھپائے اور پھر جادوگروں کو قتل وتعذیب کی دھمکی دی۔ (ک) مگر سچا ایمان اگرچہ ایک لمحہ کا ہو وہ انسان میں ایسی روحانی طاقت بھر کردیتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے مرعوب ومسخر نہیں کرسکتی وہی جادوگر جوفرعون سے صلہ وانعام کی التجائیں کررہے تھے ایمان لانے کے بعد معا ایسے بے پروا ہوگئے کہ سخت جسمانی اذیت کی دھمکی بھی انہیں متزلزل نہ کرسکی۔ (ل) اب یہاں آیت ٥٢ سے حضرت موسیٰ کا دوسرا مشن شروع ہوتا ہے یعنی بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانا اور ان کو لے کر ملک شام کو چلے جانا، چنانچہ فرعون سے مقابلہ کے کئی سال بعد جب اللہ نے مناسب سمجھا تو حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل سمیت ہجرت کا حکم دیا، بنی اسرائیل کی آبادیاں چونکہ متفرق تھیں اس لیے حضرت موسیٰ نے تمام بستیوں میں ہدایات بھیج دیں کہ لوگ ہجرت کے لیے تیار ہوجائیں اور اس سفر کے لیے ایک خاص رات مقر کردی اور ہدایت کے مطابق رات کو ساری قوم متعین راستہ پر نکل کھڑی ہوئی۔ (م) فرعون کو جب پتہ چلاتواس نے ہنگامی حالت کا اعلان کردیا اور فوری امداد کے لیے فوج طلب کرلی، وہ دل میں خوف زدہ تھا مگر ظاہر یہ کیا کہ ان لوگوں نے ہمیں غصہ دلایا ہے اور اس لیے ہم انہیں سزا دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی ہلاکت اور بنی اسرائیل کی وراثت ارض : (ن) قانون الٰہی یہ ہے کہ ظالم قومیں جن مظلوم قوموں کو حقیر وکمزور سمجھتی ہیں ایک وقت آتا ہے کہ وہی شاہی وجہانداری کی وراثت ہوجاتی ہیں آیت ٥٧ تا ٥٩ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن باغات، چشموں، خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے فرعونیوں کو نکالا تھا انہی باغات وغیرہ کا وارث بنی اسرائیل کو کردیا جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل مصر چلے گئے اور آل فرعون کے باغات پر قابض ہوگئے قرآن نے یہی پیرایہ بیان سورۃ الدخان اور القصص میں اختیار کیا ہے اور امام بغوی نے بعض علمائے تفسیر سے نقل کیا ہے کہ وہ اسی کے قائل ہیں مگر قرآن کے دوسرے مقامات اور تاریخ اس کے خلاف ہے اس لیے اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ بنی اسرائیل کو جن باغات وچشموں کا وارث بنایا جارہا ہے اس سے مراد ارض فلسطین اور شام ہے اور قرآن نے اس سرزمین کو بابرکت سرزمین سے تعبیر فرمایا ہے ملاحصہ سورۃ اعراف آیت ١٣٦، ١٣٧، نیز سورۃ طہ۔ اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل مصر کی طرف پلٹنے کے بجائے فلسطین کی طرف چلے گئے اور پھر حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ تک جو واقعات پیش آئے وہ سب اسی سرزمین میں پیش آئے۔