وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
” منکرین کہتے ہیں اس شخص پر پورے کا پورا قرآن ایک بار کیوں نہیں اتارا گیا ؟ ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا نازل کیا۔ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس کو اچھی طرح ہم آپ کے ذہن نشین کرتے رہیں۔ (٣٢)
(٧) آیت ٣٢ میں ان کے چوتھے شبہ کا جواب دیا وہ کہتے تھے کہ اگر یہ خدا کی نازل کردہ کتاب ہے تو یہ پوری کی پوری بیک مرتبہ ہی کیوں نہ نازل کی گئی، معلوم ہوتا ہے کہ محمد دوسرے لوگوں سے مدد لے کر کچھ نہ کچھ بنالاتا ہے اور اسے وحی الٰہی کے طور پر پیش کرتا ہے قرآن نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ کتاب بیک مرتبہ بھی نازل کرسکتا ہے مگر تدریجی نزول سے مقصد یہ ہے کہ آپ کو ثبات قلب حاصل ہو اور اس کو اچھی طرح یاد کرلیں اور مخالفین کی طرف سے جوا عتراض ہو اس کابرموقع صحیح اور مسکت جواب مل سکے۔ ہمارے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں یعنی تورات، انجیل اور زبور یادیگر صحیفے وہ سب بیک مرتبہ نازل ہوتے تھے اور قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو بتدریج نازل ہوئیں مگر یہ ایک تاریخی غلطی ہے کتب سابقہ میں سے کسی کتاب کے متعلق ہم یہ دعوی نہیں کرسکتے کہ وہ بیک وقت نازل ہوئی، موسیٰ (علیہ السلام) کو جوالواح دی گئی تھیں وہ کل تورات نہ تھیں بلکہ تورات کا ایک حصہ تھیں اور ان میں صرف احکام عشرہ درج تھے قرآن کریم میں حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کی جوتاریخ مذکور ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ پر بتدریج احکام نازل ہوتے رہے یہی حال دوسری سماوی کتابوں کا ہے۔ واللہ اعلم۔