تَبَارَكَ الَّذِي إِن شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّن ذَٰلِكَ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَيَجْعَل لَّكَ قُصُورًا
” بڑابابرکت ہے وہ اللہ۔ اگر چاہے تو آپ کو بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور بڑے بڑے محلات دے سکتا ہے۔“ (١٠)
(٥) اب یہان آیت ١٠ سے اصل اعتراضات کے جوابات دینے شروع کیے ہیں اور ان شبہات کے اصل محرکات کی نشان دہی کی ہے اور ان کو انجام بد سے ڈرایا ہے اور صحابہ کو صبر واستقامت کی تلقین کی ہے یعنی اللہ ان چیزوں سے بہتر چیزیں بھی عنایت کرسکتا ہے اور بتایا کہ دراصل یہ لوگ قیامت کے منکر اور مکافات عمل پر ایمان نہیں رکھتے اور پھر دنیوی سازوسامان کی فروانی نے ان کو بدمست کررکھا ہے اور دولت کے نشہ میں تمہاری دعوت کا انکار کررہے ہیں اور اب رہا پیغمبر کا بازاروں میں پھرنا اور طعام نوشی، تو یہ منصب رسالت کے منافی نہیں ہے پہلے بھی جتنے پیغمبر ہوگزرے ہیں وہ سب بلا استثنا بشر تھے کھانا بھی کھاتے اور بازاروں میں گھوما کرتے تھے قریش حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی نبوت ورسالت کے قائل تھے بلکہ ان کی ذریت ہونے پر ان کو فخر تھا وہ بھی مافوق بشرنہ تھے اسی طرح بنی اسرائیل بھی اپنے انبیاء میں سے کسی کے مافوق بشر ہونے کے قائل نہ تھے، اس بنا پر نبوت ورسالت کے سلسلہ میں قریش کو اہل کتاب کی طرف رجوع کا بھی حکم دیا اور حضرت عیسیٰ اور مریم علیہما السلام کے متعلق دعوائے الوہیت کی نفی کے سلسلہ میں فرمایا کہ یہ دونوں بھی کھانا کھاتے تھے۔