وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
” ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ (٦٢)
آیت (٦٢) میں فطرت کائنات کی ایک بہت بڑی حقیقت چند لفظوں کے اندر بیان کردی ہے، فرمایا یہاں فطرت کا یہ قانون کام کر رہا ہے کہ کسی جان پر اس کی جسمانی اور معنوی استطاعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی۔ ہر جان سے فطرت کا مطالبہ عمل اتنا ہی ہے جتنے کی اس میں استعداد ودیعت کردی گئی ہے۔ یعنی فطرت نے ہر وجود کو استعداد دی ہے اور اس استعداد کے جواب میں عمل چاہتی ہے لیکن عمل کا یہ تقاضا ٹھیک ٹھیک اتنا ہی ہوتا ہے جتنے کی استعداد اسے دے دی گئی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کو استعداد عمل تو چھٹانک بھردی ہو اور مطالبہ عمل کا بوجھ اس پر سیر بھر کا ڈال دیا جائے۔ یہ مطالبہ کس بات میں ہوتا ہے ؟ فرائض ہستی کی انجام دہی میں ہر وجود کو اپنی بقا و تکمیل کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، لیکن جتنی کچھ اور جیسی کچھ جدوجہد کرنی پڑتی ہے اتنی ہی اور اسی کیفیت کی استعداد بھی اسے دے دی گئی ہے۔ ادائے فرض کا مطالبہ اس سے زیادہ نہیں ہوتا جتنی اس کی طاقت و گنجائش ہے، اگر استعداد اور مطالبہ عمل میں یہ تطابق کلی نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ کوئی جان یہاں زندہ رہ سکتی۔ قرآن کہتا ہے جب اللہ کا یہ قانون ہر جان کے لیے ہے تو ضروری ہے کہ انسان کے لیے بھی ہو، اور جس طرح عالم جسم و صورت میں جاری ہے، ضروری ہے کہ روح و معنی میں بھی ہو۔ پس سعادت روحانی کے لیے بھی جو مطالبہ عمل ہے، وہ ٹھیک ٹھیک انسان کی استعداد عمل کے مطابق ہے، اور یہاں عالم جسم و روح، دونوں کے لیے اس کا قانون ایک ہی ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت میں تکلیف کو صرف تکلیف شرعی پر لے جانا صحیح نہیں ہوسکتا۔ یہاں تکلیف عام معنوں میں بولا گیا ہے اور اس میں ہر طرح کی تکلیف آگئی ہے۔ تکلیف کے لیے ہمیں کوئی موزوں لفظ نہیں ملا، اس لیے مجبورا ہم نے ذمہ داری کی ترکیب اختیار کی۔ یہ نئی اردو ترکیب ہے لیک ادائے مفہوم کے لیے نسبتا بہتر اور جامع ہے۔