سورة المؤمنون - آیت 1

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یقیناً مؤمن فلاح پا گئے۔“ (١)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ مکی زندگی کی آخری تنزیلات میں سے ہے، بالاتفاق الانبیاء کے بعد اتری۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت مکہ میں پیدا ہوگئی تھی اور دعوت حق کے فیضان نے اس کے خصائص اسلامی آشکارا کردیے تھے یہ گوہر مریضوں کی پہلی جماعت تھی جو اس شفا خانہ سے تندرست ہو کر نکلی، اب طبیب ان کی طرف اشارہ کر کے کہہ سکتا تھا کہ جسے میری طبابت میں شک ہو وہ انہیں دیکھ لے۔ جو طبیب اپنے نسخہ شفا سے ایسی تندرست روحیں پیدا کردیتا ہے وہ طبیب ہے یا نہیں؟ یعنی یہ جماعت اپنے خصائص ایمانی و عملی میں دعوت حق کی صداقت کی ایک مشہور دلیل بن گئی تھی۔ یہی وجہ ہے اس عہد کی سورتوں میں جابجا اس کے اعمال و خصائص کی طرف اشارات کیے ہیں۔ اس سورت کی ابتدا اسی مرقع سے ہوتی ہے، غور کرو، اس مرقع کے اصلی نقش و نگار کیا کیا ہیں؟ یہاں خصوصیت کے ساتھ پانچ وصف بیان کیے، گویا قرآن کے نزدیک ایمان و عمل کے مرقع میں سب سے زیادہ نمایاں یہی خط و خال ہیں جس زندگی میں یہ خصائص نہہوں وہ مومن زندگی نہیں سمجھی جاسکتی۔ (الف) نماز کی محافظت اور اس کا خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا، خشوع کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ میں ادا نہیں کیا جاسکتا، تم کسی باہیبت و اجلال مقام میں کھڑے ہوجاؤ، تو تمہارے ذہن و جسم پر کیسی حالت طاری ہوجائے گی؟ ایسی ہی حالت کو عربی میں خشوع کی حالت کہتے ہیں۔ (ب) ہر اس بات سے مجتنب رہنا جو نکمی ہو، صرف انہی باتوں کا اشتعال رکھنا جو دین و دنیا میں نافع ہوں۔ (ج) اپنی کمائی اپنے محتاج بھائیوں کے لیے خرچ کرنا۔ (د) زنا سے کبھی آلودہ نہ ہونا (ہ) امانت دار ہونا، اپنے عہدوں کو پورا کرنا۔